قومی مفاد، سیاست سے قابل ترجیح
حصول اقتدار کی تگ و دو ہر خطہ ارض میں زمانہ قدیم سے اپنے مخصوص حالات اور ضروریات کے تحت دیکھنے اور پڑھنے میں آتی رہی ہے۔ گزشتہ عرصوں کے دوران سیاسی کارکردگی بہتر انداز کے جنگی منصوبوں اور طاقت کے اندھے استعمال اور زیادہ مہلک سامان حرب کی بنیاد پر حریف کو شکست سے دو چار کر کے بے بس کر دینے کے حالات پر مبنی تھی۔ وقت گزارنے کے ساتھ اصول و ضوابط کے نفاذ و اجراء سے آئین و قانون کی تخلیق و تدوین کی قوت کو اقتدار کے تحفظ کی عمل داری کے اختیارات سونپنے کو مہذب اقدار کے انداز میں مختلف ملکوں میں رائج کر دیا گیا۔ آج کل ترقی یافتہ ممالک اپنی سیاسی برتری کے لئے جدید طرز کی آئینی اور قانونی ترامیم کو موثر اور کارگر بنانے کے لئے دستیاب عسکری قوت اور جمہوری اقدار کی عمل داری پر زور اور ترجیح دینے سے حریف لوگوں کو متاثر کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کا آسان طریقہ بروئے کار لا رہے ہیں۔
مختلف ملکوں میں سیاسی اقتدار کے لئے بعض امور اور اصولوں پر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ زیادہ تر بظاہر جمہوری سوچ و فکر پر مبنی اصول و ضوابط اور ضروری آئینی و قانونی ترجیحات اپنا کر اقتدار کے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی آج کل سیاسی رہنماؤں کے مابین حصول اقتدار کے لئے باہمی کشیدگی کی بنا پر آئے روز ذرائع ابلاغ میں شدید انداز کی جارحانہ سوقیانہ اور طنزیہ روش کی بیان بازی دیکھی جا رہی ہے۔ اس معاملہ میں حریف نمائندوں کی کردار کشی اور تلخ و تند لب و لہجوں میں ان پر غیر قانونی حرکات کے ارتکاب کی الزام تراشی شب و روز کی بہتان بازی کمال بے اعتنائی سے رواں رکھی جا رہی ہے۔ اس جہالت سے زیادہ تر متحرک حریف رہنماؤں اور کارکنوں میں باہمی رنجش، عداوت اور ناراضگی کے حالات بڑھ کر ماحول کو مزید کشیدہ اور اشتعال انگیز بنانے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں باہمی انتشار و فساد اور لڑائی جھگڑوں کے واقعات آئے روز مختلف علاقوں میں پھیلنے کے امکانات تقویت پکڑتے ہیں۔
گزشتہ چند سال میں مذکورہ بالا نوعیت کے سیاسی حالات وطنِ عزیز کے بیشتر علاقوں میں کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ اقتدار پر بہر صورت اور جلد قابض ہونے والوں کی حرص و ہوس ان لوگوں میں قانون و انصاف کے اصولوں کی پاسداری اور شائستہ اقدار کو بے رحمی سے پامال کرنے میں اضافہ کر رہی ہیں۔ کیونکہ ان کو اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لئے اپنی سیاسی حیثیت کو برتر ظاہر کرنا اور مطلوبہ اہداف کی جلد رسائی ہے۔
صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات منعقد کرانا بھی آج کل سیاسی کارروائی کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ کے فیصلہ پر بھی وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے مابین تا حال باہمی اختلاف ہونے کی بحث چل رہی ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ 3-2 کی اکثریت سے بتایا گیا ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کے رہنما اور دیگر حامی لوگ اسے 4-3 کی اکثریت پر مبنی رہے ہیں۔ اگرچہ یہ فیصلہ مورخہ یکم مارچ کو صادر کیا گیا مگر تا دم تحریک حکومت اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کا اس پر ردعمل اپنے اپنے موقف کے دلائل اور نکات کی حمایت اور طرفداری کی زور دار وضاحت کا آئینہ دار بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ یہاں کی سب سے بڑی عدالت ہے اس کے فیصلہ پر حکم کے مطابق سب فریقین کو عمل کرنے میں کوئی اعتراض اور حیلہ سازی نہیں کرنی چاہئے اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب آئین کی متعلقہ شقوں کے تحت مقرر کی گئی تاریخوں پر کرانے کے انتظامات کی ضروری کاوشیں اور تیاریاں الیکشن کمیشن کی ہدایات اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے لئے کی جانا لازم ہیں۔
اس ضمن میں ملک کے معاشی مخدوش حالات پر بھی توجہ دینا کافی اہم معاملہ ہے یاد رہے کہ یہاں کی خراب معیشت کی بنا پر وطن عزیز کو گزشتہ چند ہفتوں سے آئی ایم ایف سے باہمی مذاکرات میں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ وہ ادارہ اپنے قرضوں کی واپس ادائیگی بھی قبل ازیں طے شدہ وقت اور شرائط کے تحت طلب کرتا ہے۔ یہاں سود کی شرح 3 فیصد بڑھا کر 20 فیصد ہو گئی ہے۔ مزید امیر لوگوں پر ٹیکس لگانا اور کئی اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ مذاکرات تا حال جاری ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات سے پتہ چل رہا ہے کہ سٹاف لیول کا معاہدہ جلد ہونے کو ہے اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سراسر بے بنیاد ہیں۔
اگر اسی سرزمین یا کسی صوبے پر کسی دیگر پارٹی کی بالا دستی میں حکومت اقتدار میں ہو تو اسے دھونس اور دھاندلی سے تشکیل دی گئی جعلی اور ناجائز حکومت کا نام دے کر مفاد پرستی کے ٹولہ سے تشبیہ دے کر اور نام نہاد انداز سے تعبیر کر کے اس کی اہمیت اور وقعت کو بہت کم اور محض برائے نام ہونا ظاہر کیا جاتا ہے۔