21ویں صدی کا تغیراتی تنوع اور نعتیہ ادب

  21ویں صدی کا تغیراتی تنوع اور نعتیہ ادب
  21ویں صدی کا تغیراتی تنوع اور نعتیہ ادب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہر آنے والی صدی اپنے ساتھ کچھ بنیادی تغیرات لے کر آتی ہے جو پچھلی صدی سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور اس کا ظہورکم و بیش اس کے پہلے حصے میں ہو جاتا ہے یا پچھلی صدی کی آخری دہائی اس کی طرف پیش قدمی کا آغاز کر چکی ہوتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ تغیرات اکثر صدی کے پہلے حصے میں رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور 21ویں صدی میں بھی اس کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے، جس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اس صدی کی وہ اٹل سچائی ہے جو ہماری جدید نسل کے ہاتھوں میں آ چکی ہے،اس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اسے ایک طلسم کدے کا نام ہی دیا جا سکتا ہے، جس نے ہماری زندگیوں، حالات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو براہِ راست چیلنج کر دیا ہے۔یہاں انسانوں نے انسانوں سے ہی حاصل کئے ہوئے ڈیٹا کو ایک مصنوعی مشین میں ڈال کر اس سے ایک نئی دنیا تخلیق کر دی ہے۔ اب کوئی لفظ منہ سے نکالیں اور اس پر چند سیکنڈ میں بنا بنایا مواد آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اِس وقت ہم ایک تخیلاتی دنیا کا حصہ بن چکے ہیں، جس میں اب بیشتر چیزیں حسیات سے کوسوں دور بلکہ ناقابل ِ شناخت ہیں، لیکن ہم اس پر غیر محسوس طریقے سے حسیاتی یقین کے دور میں داخل ہو کر اس کو کلیتاً عملی طورپر اختیار بھی کر چکے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ دور ہے، جو دراصل خدا کے وجود پر یقین کا سب سے بہتر اور بڑا استعارہ بن رہا ہے جہاں ہر چیز حسیات میں آئے بغیر ہمارے یقین کا محور بن رہی ہے۔

اس طلسماتی صدی کے حیرت انگیز اثرات نعتیہ ادب پر بھی ویسے ہی اثر پذیر ہو سکتے ہیں جیسے زندگی کے کسی بھی شعبہ پر ہو رہے ہیں۔21ویں صدی تخلیق نعت اور تحقیق نعت میں حیرت انگیز انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، جس میں ایک طرف تحقیق کی جستجو رکھنے والوں کو ایسی آسانی میسر آ چکی ہے، جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حقیقی تخلیق کار اور تحقیق نگار اس صدی کی بہت بڑی ایجاد سے مستفید ہوتے ہوئے نعتیہ ادب میں بہت سارے نئے دروازے کھولنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اے آئی کے ٹول اب ہر مزاج اور ہر موضوع کی شاعری کے لئے بھی استعمال ہو رہے ہیں، جس کے اثرات مذہبی شاعری پر بھی ہونے کے امکانات سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔ہر چند کہ یہ ابھی شاعری کی تخلیق میں مہارت حاصل نہیں کر پایا، لیکن اس کا حقیقت سے قریب تر ہونا اب زیادہ دور نہیں رہا کہ ہر مزاج اور ہر دور کے مطابق کم از کم آپ کو کچھ نہ کچھ تخلیق کر کے آنکھ جھپکنے میں سامنے رکھ دیتا ہے۔ آنے والے دِنوں میں تخلیق کی حقانیت کو جاننا بھی دوبھر ہو جائے گا کہ یہ عمل ذہن انسانی کی کاوش سے روپذیر ہوا ہے یا مصنوعی ذہانت کا شاخسانہ ہے۔اس صدی کے نعتیہ محققین کو حوالہ جات تک رسائی، موضوعات کے تنوعات، رائٹنگ سکل کو امپرو کرنے میں یہ ایجادات انتہائی معاون ہو سکتی ہیں اور اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی آسانی کم از کم پچھلی صدی کے محققین کو حاصل نہیں تھی۔

اِس وقت نعتیہ شعبے کو مختلف جہات پر زمانی و تاریخی اور مختلف زبانوں کے سرمائے کو لائبریریوں کے سمندر سے نکال کر اے آئی کے افق تک لیجانے کا مرحلہ در پیش ہے۔ اِس وقت ہمیں نعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈیجیٹل معاونین کی مدد درکار ہے جو اس تیز رفتار صدی کے تغیر میں نعت کے خزانے کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔

اب یہ اہم ترین فیصلہ آج کے ادیب، شاعر نعت نگار محقق اور نقاد کے اپنے ہاتھوں میں آ چکا ہے کہ اس نے مصنوعی ذہانت کو استعمال کر کے اپنے سفر میں حقیقی جست لگا کر آگے بڑھنا ہے یا اس کے ہاتھوں سے استعمال ہو کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنا ہے۔اس وقت اس ٹیکنالوجی کے خطرناک عمل کے منفی اثرات سے خود کو بچانا ہی شاید اس صدی کے تخلیق کار اور محقق کا سب سے بڑا چیلنج بن سکتا ہے، کیونکہ اب تخلیق کار بننے سے زیادہ مصنوعی تخلیقی عمل سے بچنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اگلے پچیس سالوں میں اس صدی کے تغیراتی تنوع کے ساتھ مثبت پیش قدمی سے یکسو ہونے کے عمل کو حقیقی معنوں میں اپنانے کی صورت میں ہی نعتیہ ادب کے متعلقین اس صدی کو نعت کی صدی کہنے پر حق بجانب ہو سکتے ہیں۔ 

 حسان بن ثابت سینٹر فار ریسرچ ان نعت لٹریچر منہاج یونیورسٹی لاہور اور نعت فورم انٹرنیشنل کے باہمی اشتراک سے چوتھی قومی ادبی نعت کانفرنس 2025ء میں اس سال بنیادی تھیم ہی یہی رکھا گیا کہ ہمارے محققین اس صدی کے تغیرات پر غور کر کے نعت کاری کے عمل میں اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کریں تا کہ آج کا تخلیق کار اور محقق ونقاد اس کی روشنی میں اپنا سفر آگے بڑھا سکے۔ صدی کے تغیرات کے تناظر میں نعتیہ ادب کے امکانات کا پہلو بالکل نیا زاویہ ہے، جس پر اس کانفرنس میں بہت سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ قومی ادبی نعت کانفرنس اب ایک توانا روایت بن چکی ہے، جس نے اندرون و بیرون ملک بھی اہل ادب کی توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے اور اب اس کی گونج سمندر پار بھی سنائی دے رہی ہے جو بہت خوش آئند و حوصلہ افزاء ہے۔

اللہ کرے کہ یہ صدی جسے نعت کی صدی کا نام بھی دیا جا رہا ہے حقیقی معنوں میں اس مبارک فن کے نئے زاویوں کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرے۔جدید طرز علم و تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اس عمل کو آگے بڑھانے کا سبب بنے،بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔ آمین

مزید :

رائے -کالم -