افغانستان میں نئی جنگ
افغانستان میں امریکہ نے ایک خطرناک جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ اس پورے خطے کو اپنی شکست کی سزا دینے کے لئے ایک نئے انداز کی جنگ میں مصروف ہے۔ برطانوی روزنامے ”گارڈین“ کے مطابق امریکہ جنگ میں شکست کھانے کے بعد افغانستان میں امن کو شکست دینے کے لئے بھیانک جنگی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے طالبان کی حکومت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان دنیا سے بار بار اپیل کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لیں۔ اسے تسلیم کر لیں، لیکن امریکہ کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ دنیا کو اپنا خوفناک چہرہ دکھا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کئے، جس کے تحت افغانستان کے 7 بلین ڈالر میں سے نصف یعنی 3.5 بلین ڈالر 9ستمبر کے سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو بطور معاوضہ دیئے جائیں گے، جبکہ 3.5 بلین ڈالر اس انداز سے افغانستان کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ وہاں انسانی امداد کے لئے خرچ کئے جائیں گے۔ تاہم اس کا کریڈٹ کسی طرح طالبان حکومت کے حصے میں نہیں آئے گا۔
افغانستان نے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے خلاف افغانستان میں جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ حامد کرزئی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ افغان حکومت صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے، مگر امریکی افغانوں کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ وہ افغانوں کو بھوک سے مرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں قندوز سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک غریب شخص نے اپنی بیٹیاں فروخت کر دیں۔ اس طرح غربت کی وجہ سے عضو فروخت کرنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ افغان بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ افغانستان میں بھوک کے عفریت ناچ رہے ہیں۔
ترکی افغانستان میں امداد بھجوا رہا ہے۔ پاکستان افغان بھائیوں کی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان بھارتی گندم کو افغانستان پہنچانے کے لئے سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ مگر افغانستان میں غذائی قلت کا جو بحران پیدا ہو رہا ہے اس کے سامنے ان اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
امریکہ نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں۔ دوسرے ممالک اسے امداد نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ امریکہ طالبان کے خلاف ہے، مگر عملی طور پر امریکہ پورے افغانستان کے خلاف اقدامات کر رہا ہے۔ گزشتہ دور میں امریکہ افغان انتظامیہ کے 80فیصد سے زائد اخراجات ادا کرتا تھا، مگر اب وہ افغانستان کو اس کی رقم دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صدر بائیڈن کے فیصلے پر واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی رقم افغانستان کو ملنی چاہئے اور وہ رقم کیسے خرچ ہونی چاہئے اس کا اختیار بھی افغان حکومت اور عوام کو حاصل ہے۔
اقوام متحدہ، یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں سے افغانستان کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں، مگر امریکہ اپنی ظالمانہ پالیسیاں تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکی حکام کو خوب علم ہے کہ اگر طالبان حکومت ناکام ہوتی ہے تو افغانستان میں جو انتشار اور بدامنی پیدا ہو گی اس کے نتیجے میں پڑوسی ممالک میں مہاجرین کا ایک سیلاب آئے گا۔ ہیروئن کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ دہشت گردی کسی نہ کسی انداز میں خطے کے دوسرے ممالک تک پہنچ جائے گی اور افغانستان کی بدامنی دنیا کے امن کو متاثر کرے گی۔ 1921ء میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے امن کا انحصار کابل کے امن پر ہے۔ ان کی یہ بات آج بھی درست ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو گرنے نہیں دے گا، مگر وہ اسے کسی طرح مستحکم بھی نہیں ہونے دے گا۔
امریکہ کے رویئے کو سمجھنے کے لئے ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے افغانستان میں بدترین شکست ہوئی ہے اور اسے اپنے مقاصد پورے کئے بغیر رخصت ہونا پڑا تھا۔ جن طالبان کو اس نے 20 سال قبل اقتدار سے نکالا تھا وہ واپس اقتدار میں آ گئے۔ اس کے کھربوں ڈالر ضائع ہوئے اور امریکی قیادت یہ بھی محسوس کر رہی ہے کہ گزشتہ دو عشروں میں جب وہ افغانستان میں پھنسے ہوئے تھے تو چین ایک بڑی طاقت بن گیا۔ اب امریکی چین کو اپنی معیشت اور سیاسی برتری کے لئے بہت بڑے خطرے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور وہ اس کے خلاف اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی رائے عامہ اس وقت افغانستان کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ بڑی حد تک امریکی شکست کو کچھ زیادہ ذلت آمیز انداز میں پیش کرنے میں بھی ہے۔ امریکہ میں ایک مقدمہ بھی چل رہا ہے کہ افغانستان نے چونکہ اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی، اس لئے اسے 9ستمبر کے سانحے کے لواحقین کو معاوضہ بھی دینا چاہئے۔
صدر بائیڈن نے افغانستان میں جو نئی جنگی حکمت عملی اختیار کی ہے اس سے وہ افغانستان کے عوام کو سزا دینے میں تو کامیاب ہو جائے گا، مگر اس کا انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا امیج بری طرح متاثر ہو گا۔ اگر افغانستان میں قحط پڑتا ہے تو امریکی رائے عامہ صدر بائیڈن کے خلاف ہو جائے گی،کیونکہ عام امریکی انسان اور انسانیت کو اہمیت دیتا ہے۔امریکہ افغانستان کے ساتھ کیا کرے گا؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا مگر اس بحران سے نپٹنے کے لئے افغان حکومت اور پاکستان کو دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ پرفریب نعروں کے سراب سے نکل کر حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وقت تیزی کے ساتھ گزرتاجا رہا ہے اور ہر گزرتا ہوا لمحہ افغانستان کے المیے کو زیادہ سنگین بنا رہا ہے۔