دنیا داری کیوں چھوڑ دی؟
مدثر اپارٹمنٹ سے نکلے اور کیوی کی طرف تیز قدم چل پڑے۔ کیوی یہاں ناروے میں کھانے پینے کی اشیاء اور سبزی فروٹ کی دکان کا نام ہے۔ درجہء حرارت منفی پندرہ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ مدثر نے کالے رنگ کا ایک لمبا اور گرم کوٹ پہن رکھا ہے اور کوٹ کی گرم اون والی ٹوپی کس کر سر سے باندھی ہوئی ہے۔ کالے رنگ کے گرم بوٹ پہن رکھے ہیں جو گھٹنوں تک پہنچ رہے ہیں۔اس کے باوجود کہ مدثر کا چہرہ ٹوپی سے ڈھانپا ہوا ہے۔ پھر بھی برف باری اس قدر بے ہنگھم اور شدید ہے کہ آنکھوں اور ناک پر تیر کی طرح ٹکرا رہی ہے۔شام کے ابھی پانچ ہی بجے ہیں لیکن اندھیرا پھیل چکا ہے۔ مدثر دکان سے ابھی کچھ فاصلے پر ہیں ۔ محض چند میٹر کے فاصلے پر کوئی اوندھے منہ زمین پر جھکا نظر آیا تو مدثر کے پاوں بے اختیار دکان کے بجائے اس طرف اٹھ گئے۔
قریب پہنچ کر مدثر ہم کلام ہوئے۔’’ہیلو! تمھیں مدد کی ضرورت ہے؟ تمھارا کیا نام ہے؟‘‘
’’ نہیں۔ شکریہ‘‘ ایک زنانہ آواز آئی’’ میرا نام سلویا ہے‘‘
’’اس قدر سردی میں تم کیا ڈھونڈ رہی ہو؟ ‘‘
سلویا جو زمین پر مکمل جھکی ہوئی تھی بغیر سر اٹھائے بولی ’’ میرا یہاں کچھ گم ہوگیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں‘‘ مدثر نے سردی کا اچھا بندوویست کیا ہوا ہے ۔ تیز ہوا کے جھکڑ ، اندھیرے اور برف باری کے باوجود وہ کنکریٹ کے فرش پر بیٹھ گئے اور غور سے دیکھنے کی کوشش کہ سلویا کیا ڈھونڈ رہی ہے۔ سلویا ایک دروازے سے باہر دھلیز پر ایک جھالی کے نیچے سگریٹ کی بے شمار چھوٹی ٹوٹیوں کو ایک تیلے کی مدد سے ٹٹول رہی تھی۔ اسے ایک ایسے سگریٹ کی تلاش تھی جو پی کر پھینکا گیا ہو لیکن اس کا کچھ حصہ ابھی باقی ہو اور فی الحال مدثر کی سمجھ میں اتنا ہی آسکا۔ مدثر ساتھ والے ستون سے ٹیک لگا کر نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔
’’تم کیا ڈھونڈ رہی ہو؟ درجہ ء حرارت منفی پندرہ ہے ۔ تمھیں سردی نہیں لگ رہی؟‘‘
’’نہیں میں ٹھیک ہوں۔ یہاں کچھ کھوگیا ہے۔ اسے ڈھونڈھنا ہے مجھے ‘‘
’’مجھے بتاو میں تمھاری مدد کروں۔ اتنی سردی میں تم فریز ہوجاو گی‘‘
’’مجھے بھوک لگی ہے‘‘ سلویا بولی’’ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ تمھیں کیا چاہیے؟‘‘
’’اچھا دکان پر چلتے ہیں۔ مجھے کچھ خریدنا ہے‘‘ سلویا بولی
مدثر نے بہت گرم کوٹ پہنا ہوا ہے لیکن ٹھنڈے فرش پر بیٹھنے سے مدثر نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کا بیشتر حصہ بے جان ہوتا جارہا ہے۔ مدثر نے کروٹ بدلی اور بے چینی سے سلویا کو مخاطب کیا ۔
’’اب ہمیں چلنا چاہیے۔ تمھیں سردی نہیں لگ رہی؟‘‘
’’بس چلتے ہیں‘‘ سلویا بولی
مد ثر نے ایک لمحے کے لیے سوچا وہ کیوں فرش پر بیٹھا ہے؟ اس نے تو دکان پر جانا تھا اور کچھ خریدنا تھا پھر اس نے فلاں کام کرنا تھا۔ اس کے بعد کھانے کا وقت ہوجائے گا۔ اس کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے۔ وہ یہاں کیوں بیٹھا ہے؟ بس ابھی چلتے ہیں۔ ذرا دیکھیں تو سہی سلویا کا ٹائم ٹیبل کیا ہے؟ مدثر نے خود کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
تقریباً آدھ گھنٹے بعد سلویا لڑکھڑاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’تمھاری عمرکیا ہے؟‘‘ مدثر نے پوچھا۔
’’چوبیس سال‘‘
’’تم کہاں رہتی ہو؟‘‘
’’میں اوسلو سے ایک گھنٹہ دور رہتی ہوں۔ دو دن ہوگیے ہیں مجھے گھر سے نکلے ہوئے۔ گھر میں میری بلی اکیلی ہے ‘‘
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘
’’میں کچھ نہیں کرتی‘‘
مدثر کو پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ کچھ بل ادا کرنے تھے۔ کچھ عزیزوں کو کال بھی کرنی تھی۔ مدثر کے دماغ میں پھر آیا کہ وہ تو ایک ریگولر آدمی ہے ۔بل ادا کرنے ہیں۔ رشتہ داروں عزیزوں اور دوستوں کو کال کرنی ہے۔ صبح سویرے جاب پر جانا ہے۔ اگلا پورا ہفتہ مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ اُف کس قدر ڈیڈ لائنز ہیں زندگی میں۔ کیوں میں نے اس قدر سردی میںآدھ گھنٹہ ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر گزار دیا؟‘‘
سلویا کی زندگی کی روٹین مدثر کی لائف روٹین سے بالکل مختلف تھی۔ سلویا نے بتایا کہ اس کی زندگی میں کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہے۔ اس کا موبائل بھی بند تھا کیونکہ سلویا ڈیڈ لائنز کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔ سلویا بار بار اپنی بلی کا ذکر کرتی رہی۔ مدثر نے سلویا کو اپنے بارے میں کچھ بھی بتانا مناسب نہیں سمجھا لیکن پلٹ پلٹ کر مدثر کے دماغ میں یہ سوال آتا رہا کہ سلویا نے دنیا داری کیوں چھوڑ دی ؟ کیا سلویا نے ریگولر لائف سٹائل کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا تھا؟ اگر سلویا اٹھارہ سال سے کم ہوتی تو والدین کسی حد تک سلویا کو قائل کرسکتے تھے۔ مگر اٹھارہ سال کے بعد یہاں مغرب میں انسان بالغ کہلاتا ہے ۔ مغرب میں بالغ کہلائے جانے کے مفصل معانی ہیں۔ ایک بالغ انسان ویلفئیر سٹیٹ کی اکائی ہے۔ مشرقی کلچر میں عزیز و اقارب مشورے بھی دیتے ہیں۔ مدد کے لیے لپکتے بھی ہیں۔لیکن مغرب میں قانون حائل ہے اس داد رسی اور مدد کے جذبوں پر۔ جبر کرنا قانونی اعتبار سے قابل سزا جرم ہے۔ سلویا کے ماں باپ سلویا سے زبانی طور پر اور بہت احتیاط سے درخواست بھی نہیں کرتے ہوں گے کہ وہ نارمل زندگی کی طرف واپس آنے کی ایک ادنٰی سی کوشش کرے ۔یہ کام بھی محکمہ صحت کے مخصوص اداروں کا ہے۔ وہ بھی تب مدد کریں گے جب سلویا مدد کی درخواست بھیجے گی۔ سلویا کا نمبر آنے میں ہفتے لگ سکتے ہیں۔
۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔