صفا سے خانۂ کعبہ کا منظر دیکھ آیا ہوں ۔۔۔
بلندی پر بہت اپنا مقدر دیکھ آیا ہوں
صفا سے خانۂ کعبہ کا منظر دیکھ آیا ہوں
حطیم و سنگ اسود ، ملتزم ، میزاب رحمت پر
لرزتے ہونٹ ، آنکھوں میں سمندر دیکھ آیا ہوں
سر جمرات دنیائے بدی پر وار کرنے کو
جنوں کے ہاتھ میں تیار پتھر دیکھ آیا ہوں
تڑپنا پھول سے معصوم کا تپتی چٹانوں پر
تصور میں صفا مروہ کو رکھ کر دیکھ آیا ہوں
کسی کی ایڑیوں سے وہ سمندر کا ابل پڑنا
کسی کےصبر کی عظمت کا پیکر دیکھ آیا ہوں
غلاف خانۂ کعبہ پہ دونوں ہاتھ پھیلائے
میں اپنے ہاتھ میں بخت سکندر دیکھ آیا ہوں
وہ پیدل قافلے سوئے منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ
کہ دھرتی پر ابابیلوں کا لشکر دیکھ آیا ہوں
ہزاروں سال کی تاریخ آنکھوں میں سمٹ آئے
خلیل اللہ کے پیروں کا پتھر دیکھ آیا ہوں
لہو میں تر بتر نعلین ، طائف ، وادیٔ نخلہ
جہاں زخمی ہوا رحمت کا پیکر دیکھ آیا ہوں
حرا، بدر و احد، خندق قبا، صفہ کی نظروں میں
بکھرتے ٹوٹتے خوابوں کے تیور دیکھ آیا ہوں
وہ دامن میں احد کے سید الشہداء فی الجنة
نبیؐ کی فاطمہؓ کی قبر اطہر دیکھ آیا ہوں
خوشا ! اے اشتیاق دید غار ثور پر چڑھ کر
تصور میں وہ مکڑی وہ کبوتر دیکھ آیا ہوں
حرم سے دور طائف سے پرے چھوٹی پہاڑی پر
حلیمہ کے جہاں ہوتے تھے چھپر دیکھ آیا ہوں
کبھی چلنا کبھی مڑ مڑ کےرکنا، رک کے روپڑنا
وداعی کی گھڑی جذبوں کا محشر دیکھ آیا ہوں
جہاں پر ختم ہیں سیل جنوں کے سلسلے بزمی
نبیؐ کا روضۂ و محراب و منبر دیکھ آیا ہوں
کلام : سرفراز بزمی (سوائے مادھوپور راجستھان ،بھارت)