Daily Pakistan

سنجیدہ شاعری


ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا ۔۔۔ تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے 

زندگی کو تو گزرنا  ہے، گزر جاۓ گی۔۔۔ کیا یہ بگڑی ہوئی تقدیر سنور جاۓ گی؟

میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں۔۔۔  تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو 

بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے۔۔۔ یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے

دوست اک بات کا تو دھیان رہے  ۔۔۔ملنے کا پھر یہاں امکان  رہے

عمر گزرے گی امتحان میں کیا ۔۔۔ داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا 

آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں۔۔۔  کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو 

نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں  ۔۔۔ نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی 

تو محبت سے کوئی چال تو چل ۔۔۔ ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے 

کہ ہے یہ تعمیلِ حکمِ ربی، درود پڑھنا ،سلام کہنا۔۔۔

یوں ہی گزار دی جو زندگی تو کیا حاصل۔۔۔  کسی کے کام جو آؤ تو کوئی بات بنے 

 گزر رہی ہے ہماری   یہ زندگی کیسے ۔۔۔جو گزرے ہم پہ حوادث تری بلا  جانے

ہوا کی زد پہ ہے اپنے چراغوں کی ضیا ہم دم ۔۔۔ دیے اس خوف سے لیکن بجھایا تو نہیں کرتے

معتقد کون ہے انساں کے تقدس کا یہاں۔۔۔ "شر" نے وہ داؤ چلا ہے کہ "بشر" لوٹتے ہیں 

غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا۔۔۔ میری جانب سے تِرے دِل میں غبار آ ہی گیا

فرض کرو ہم اہل وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں۔۔۔  فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں 

مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں۔۔۔  ہنس کر فریب چشم کرم کھا گیا ہوں میں 

 سُن بابا مجھے سب واپس لا دے۔۔۔

خوشی منائیے زندہ بھنور سے لوٹ آئے ۔۔۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے  ۔۔۔ کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے 

ذکر تیرا ہی عمدہ ہے پروردگار۔۔۔ لب پہ تیرا ہی کلمہ ہے پروردگار

زخم کھاتے ہیں اور مسکراتے ہیں ہم۔۔۔  حوصلہ اپنا خود آزماتے ہیں ہم 

دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہوا  ۔۔۔ یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہوا 

 ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔

قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا۔۔۔  وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا 

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے۔۔۔  دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے 

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا  ۔۔۔ تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا 

سائے کی مثل ڈھلنے لگتے ہیں ۔۔۔ لوگ ایسے بدلنے لگتے ہیں

عشق سے پیار سے الفت سے امن پھیلے گا ۔۔۔ساری مخلوق کی عزت سے امن پھیلے گا

ان کی طرف سے ترک ملاقات ہو گئی  ۔۔۔ ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی 

رُودادِ گلستاں میں بیاں کس طرح کروں  ۔۔۔ہر برگِ گل سے دُشمنی اب باغباں کی ہے 

ایسا نہیں گھر اس کا بسایا نہ جائے گا ۔۔۔ بیٹی سے گھر یہ چھوڑ کے جایا نہ جائے گا

تم کو وحشت تو سِکھا دی ہے گزارے لائق۔۔۔ اور کوئی حکم ،کوئی کام، ہمارے لائق

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا۔۔۔ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا 

 مرے خدایا مرے وطن کا  خیال رکھنا۔۔۔

بڑا پر خطر تھا یہ راستہ ، تیرے لوٹ جانے کا شکریہ۔۔۔

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں