ایک بھی شخص نہیں قافلہ سالار کے ساتھ ۔۔۔
لوگ آتے ہیں یہاں گرمئی بازار کے ساتھ
سر کٹاتے ہیں مگر طرّۂ دستار کے ساتھ
جو بھی زندان کی دیوار گرانے آۓ
ہم لگا دیتے ہیں دیوانے کو دیوار کے ساتھ
سانحہ یہ بھی یہاں اہلِ زمیں نے دیکھا
سنگ برسے ہیں یہاں بارشِ انوار کے ساتھ
اب تو دشمن سے ملے قافلے والے جا کر
ایک بھی شخص نہیں قافلہ سالار کے ساتھ
اب نہ ساقی ہے،نہ پیمانہ ، نہ ہے رند کوئی
اب تو میخانہ اُلجھنے لگا میخوار کے ساتھ
حرفِ شیریں نے محبت کی ہے بازی جیتی
فیصلہ دل کا تو ہوتا نہیں تلوار کے ساتھ
ظلم بڑھتا ہے تو ظالم کو مِٹا دیتا ہے
جعفری امن کہاں خون کی مہکار کے ساتھ
کلام : ڈاکٹر مقصود جعفری (نیو یارک)