مشینی روزوشب میں ،ساری الفت بھول بیٹھے ہیں ۔۔۔
مشینی روزوشب میں ،ساری الفت بھول بیٹھے ہیں
محبت باپ کی اور ماں کی شفقت بھول بیٹھے ہیں
ابلتے نور دریاؤں نے خیرہ کردیا ہم کو
حسیں تر چاندنی راتوں کی چاہت بھول بیٹھے ہیں
ہمارا دل لبھاتے ہیں یہ واٹر پارک کچھ ایسے
ندی کی گنگناہٹ، بیش قیمت بھول بیٹھے ہیں
ہمیں تو بھاگئے ہیں آسمانی شہر کے پل یوں
کہ پگڈنڈی پہ چلنے کی لطافت بھول بیٹھے ہیں
سویرا جاگتا ہے شوروغوغا سے ،مشینوں کے
اذانیں مرغ کی ،پھولوں کی نکہت بھول بیٹھے ہیں
ٹرینوں میں ،بسوں میں کھا کے دھکے ،زیر پا ہوکر
سکوتِ شام کی ساری ملاحت بھول بیٹھے ہیں
مکیں شہروں کے چل پڑتے ،سلامی دے کے کرنوں کو
روپہلی زرد کرنوں کی لطافت بھول بیٹھے ہیں
سنا ہم نے یہ غیروں سے ،کہاں اپنی خبر ہم کو
ہمیں ارشاد آپ اپنی سماعت بھول بیٹھے ہیں
کلام :ڈاکٹر ارشاد خان( بھارت )