قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج ۔۔۔
شور ، سگنل اور رکاوٹ تحفے کیا کیا دے گیا
بادلوں کے درمیاں میں ، اپنی کشتی کھے گیا
زندگی نےدے دیا تھا اس کو بوسیدہ لباس
بعد مرنے کے نیا کیوں ؟ وہ کفن اوڑھے گیا !!
چپلوں کا ڈھیر در پر ، تھا امیر شہر کے
مفلسی کا کتا اس کو ، اور در پر لے گیا
راہ جب دیتا نہیں ،کوئی توخود ہی ڈھونڈ لی
میں کچل کے اور کو،یااور کو پھاندےگیا
زندگی تیرا سفر ، گویا کہ لوکل کا سفر
بھیڑ سے تھکتا بدن یہ ، آنکھ بھی موندے گیا
قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج
کشمکش طبقات کی تو ، جبر بھی روندے گیا
دھوپ اس کو افسری کی روکتی تھی راہ میں
ڈوبتے سورج سے بچتے ، آج گھر سیدھے گیا
تجربہ تھا پاس اس کے اور سرمایہ مرا
لے گیا سرمایہ میرا ، تجربہ وہ دے گیا
کھال کی چپل بنا کر ، ماں تجھے پہناؤں گر
ہو نہ حق پھر بھی ادا ، ارشاد جو روندے گیا
کلام :ڈاکٹر ارشاد خان( بھارت )