قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج ۔۔۔

قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج ۔۔۔
قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج ۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شور ، سگنل اور رکاوٹ تحفے کیا کیا دے گیا 
بادلوں کے درمیاں میں ، اپنی کشتی کھے گیا 

زندگی نےدے دیا تھا اس کو بوسیدہ لباس 
بعد مرنے کے نیا کیوں ؟ وہ کفن اوڑھے گیا !!

چپلوں کا ڈھیر در پر ، تھا امیر شہر کے 
مفلسی کا کتا اس کو ، اور در پر  لے گیا 

راہ جب دیتا نہیں  ،کوئی توخود  ہی ڈھونڈ لی
میں کچل کے اور کو،یااور کو پھاندےگیا
  زندگی تیرا سفر ، گویا کہ لوکل کا سفر 
بھیڑ سے تھکتا بدن یہ ، آنکھ بھی موندے گیا 

قطرہ قطرہ زندگی نے ، لے لیا مجھ سے خراج 
کشمکش طبقات کی تو ، جبر بھی روندے گیا 

دھوپ اس کو افسری کی روکتی تھی راہ میں 
ڈوبتے سورج سے بچتے ، آج گھر سیدھے گیا 

تجربہ تھا پاس اس کے اور سرمایہ مرا 
لے گیا سرمایہ میرا ، تجربہ وہ دے گیا 

کھال کی چپل بنا کر ، ماں تجھے پہناؤں گر
ہو نہ حق پھر بھی ادا ، ارشاد جو روندے گیا 

کلام :ڈاکٹر ارشاد خان( بھارت )