کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے ۔۔۔

کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے ۔۔۔
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے ۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے 

سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے 
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا 

سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے 
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج 

کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے 
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا 

اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے 
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے 

نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے 
چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا 

عجیب دن تھے عجب سرپھرے زمانے تھے 

کلام :آشفتہ چنگیزی