اک اندھیرا سا اِدھر اور اُدھر ہے کیوں ہے ۔۔۔
زندگی وادی و صحرا کا سفر ہے کیوں ہے
اتنی ویران مری راہگزر ہے کیوں ہے
تو اجالے کی طرح آ کے لپٹ جا مجھ سے
اک اندھیرا سا اِدھر اور اُدھر ہے کیوں ہے
روز ملتا ہے کوئی دل کو لبھانے والا
پھر بھی تو ہی مرا محبوب نظر ہے کیوں ہے
گھر کی تصویر بھی صحرا کی طرح ہے لیکن
فرق اتنا ہے کہ دیوار ہے در ہے کیوں ہے
جس کو دیکھوں وہی برباد ہوا جاتا ہے
آدمی کیا ہے محبت کا کھنڈر ہے کیوں ہے
میں سمندر ہوں مگر پیاس ہے قسمت میری
میرے دامن میں اگر اشکؔ گہر ہے کیوں ہے
کلام : ابراہیم اشک