کیمرہ اور کلاشنکوف۔۔۔(افغان شاعرہ ثروت نجیب کی نظم )
تم نے
سدا مجھے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا
ہمیشہ
تمھارے لینز کا زوم
میرے کندھے پہ لٹکی کلاشنکوف پہ فوکس رہا
تم نے میری بانسری
اور شیشوں سے مزین نسوار کی ڈبیا
کو نظر انداز کر کے
میرا جو روپ دنیا کو دکھایا
وہ میرا آدھا سچ تھا
میری مکمل کہانی
میری کلائی پہ گودے ہوئے گلاب کے پھول کی طرح
ہمیشہ پوشیدہ رہی
کیونکہ میرے کف کے بٹن
میری ثقافت کی وجہ سے اکثر بند رہتے ہیں
تم نے میری مہندی سے رچی انگلیوں کی پوروں،
کان میں اڑسے مرسل کے پھول
اور شوخ دھاگوں سے کاڑھی گئی رخچینہ ( ٹوپی ) سے بھی
اندازہ نہیں لگایا
کہ میرا دیہاتی ذوق کتنا رنگین ہے
مجھے روسی ٹینکوں
خانہ جنگی کے دنوں میں داغے گئے میزائلوں
اور امریکی بی باون طیاروں سے گرائے گئے بموں نے
اتنا زخمی نہیں کیا
جتنا تمھاری فوٹو گرافی نے مجھے اور میری شہرت کو گھائل کیا ہے
میں آج تک کسی کو بتا نہ سکا
کہ دراصل
کلاشنکوف میں نے حملہ آور
جنگلی بھیڑیوں کو ڈرانے کے لیے اٹھا رکھی تھی
یہ اور بات
بھیڑے روپ بدلتے رہے
اور میں
دنیا کی نظروں میں جنگ جو کا جنگ جو ہی رہا!
( انتخاب : سلیم خان )