طاقت اور بڑھانی ہے ٹوٹے ہاتھوں کی۔۔۔
اپنے یاروں کے سنگ ٹھکانا کیسے ہو
گرتے حوصلوں کا بھی اٹھانا کیسے ہو
منزل ایسی ہے پار اترنا ہے مشکل
اب خود چلتے ہیں ساتھ زمانہ کیسے ہو
ان جسموں میں خون جما ہے برسوں کا
ٹھنڈے جذبوں کو آگ لگانا کیسے ہو
طاقت اور بڑھانی ہے ٹوٹے ہاتھوں کی
اپنوں سے کبھو میل ملانا کیسے ہو
نظریں بند ہیں میرے جوانوں کی ابتک
کرگس اڑتے ہیں تیز نشانہ کیسے ہو
اپنی چیز سے مسئلہ کیا ہو گا یارا
چاول آج بھی اور پرانا کیسے ہو
کالی رت میں قدم تو اٹھائیں امبر جی
پر دھرتی پہ چراغ جلانا کیسے ہو
کلام : ڈاکٹر شہباز امبر رانجھا