ہم سب مرے ہوئے ہیں
ایک صحابیؓ نے آپﷺ سے سوال کیا کہ’’ یا رسول اللہﷺ! دنیا آخر کیا ہے؟‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے چلتے ہوئے فرمایا ’’ یہ خواب ہے۔‘‘
اب اللہ کے رسولﷺ مثال میں تو بات نہیں کر رہے بلکہ آپﷺ جو بات ارشاد فرما رہے ہیں، وہی اُن کا مقصد ہے۔
کیا آپﷺ نے اُن صحابی کو کوئی تسلی دی؟ اگر آپ صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی احادیث پہ غور کریں توآپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی صحابیؓ رسولﷺ سے کوئی سوال کر تا توسال ہا سال انتظار کرتا کہ اُس کا ضمنی سوال بھی پوچھ سکے۔ اب اُن صحابیؓ نے فوراً پوچھا’’یا رسول اللہﷺ! اگر یہ خواب ہے تو کیا ہم سب لوگ مر چکے ہیں جو اس خواب کا حصہ ہیں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں! ہم سب مرے ہوئے ہیں۔‘‘
اس بات پہ غور فرمائیے کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ ہم سب مرے ہوئے ہیں ۔
اب اُن صحابیؓ نے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! تو پھر ہم زندہ کب ہوں گے؟ جاگیں گے کب ؟‘‘
آپﷺ نے جواب میں فرمایا ’’جب قبر میں پہلی رات اپنی آنکھ کھولو گے۔‘‘
اب یہاں غو ر طلب بات یہ ہے کہ ایک وہ زندگی جب ہم اس کائنا ت میں نہیں آئے تھے، ہم اللہ کے ہاں تھے اور ایک وہ زندگی شروع ہو گی جب ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنی قبر میں اُتریں گے۔ اب یہ جو درمیان میں اسّی سال، ساٹھ سال، ستر سال یا سو سال کا جو ایک وقفہ ہے اُسے اللہ کے رسول ﷺ نے ’’موت‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ موت ہے لیکن ہم ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ بڑے خیالوں کو ہم حالتِ موت میں شاید نہیں سمجھ سکیں گے۔ میرے ایک دوست ہیں ابو بکر سراج صاحب۔ اُنھوں نے اس کی بڑی اچھی تفسیر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی تعریف کو یوں سمجھوکہ جو سب سے زیادہ تنہا ہے وہ خدا ہے کیوں کہ اُس جیسا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، اُس کے ساتھ کوئی نہیں ہو سکتا۔ (جو جس قدر تنہا ہے، وہ اُس قدر خدا ہے) اب یہ الفاظ انھوں نے بریکٹ میں اس لیے لکھے کہ یہاں سے اُنھوں نے ایک فلسفہ نکالنا تھا تصوف کا ۔کہ خدا کی شناخت تنہائی میں ہی ہوتی ہے۔ ا س کا مطلب ہے کہ اگر خدا تنہا ہے تو پھر خدا کی شناخت زمانے سے نہیں بلکہ تنہائی سے ہی ہوتی ہے۔
خواتین و حضرات! یہ طریقہ، یہ اندازِ فکر اس معاشرے میں موجود ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں کیا کہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جس نے تنہائی میں سب سے زیادہ عبادت کی وہ میرے زیادہ قریب ہے، یہ بھی ارشاد فرما سکتے تھے کہ زیادہ عمرے کرنے والا عام لوگوں میں یا نمازیوں اور عبادت گزاروں میں زیادہ افضل ہے، نماز پڑھنے والا بے نمازیوں سے افضل ہے مگر خواتین و حضرات! اللہ نے ایسے کوئی تکبرات پیدا ہی نہیں کیے۔ اُس ذات باری نے ایک ہی آیت میں تمام تکبرات کی نفی کر دی اور اسی آیت میں خدا تعالیٰ نے انسا ن کو تنبیہ کی بلکہ ڈانٹا اور رب العالمین کیسے ڈانٹتے ہیں، کہا ’’جو لوگ سوچتے اور سمجھتے نہیں، بغیر سوچے سمجھے ایمان لے آتے ہیں، وہ اندھے ہیں،وہ بہرے ہیں، وہ چوپائے ہیں‘‘ اب اسی continuation میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ میں نے علم کے اندر جو درجات پیدا کیے وہ اس طرح سے کیے کہ ہر علم والے پہ ایک علم والا ہے، اور غور کیجیے گا ، یہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو بھی نہیں چنا کہ آپ کا مسلمان یا مومن ہونا ضروری ہو گا۔ یہاں پہ جو چیز ضروری اور افضل ہو گی وہ ہے علم۔۔۔ یعنی برتر وہ ہو گا جو آپ میں سے زیادہ علم رکھنے والا ہو گا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کی شناخت یہ ہے کہ وہ تنہا و یکتا ہے تو اُس ذات احد کی شناخت کے لیے تنہائی جزو لازم ہے۔ اب یہاں ہم ایک چیز بھول جاتے ہیں اور وہ ہے اس کی بنیاد۔ وہ ہے دین کا لفظی معنی۔ یہ تو بنیادی بات ہے ناں کہ کسی بھی تصور کو سمجھنے سے پہلے آپ اُس کے لغوی معانی دیکھیں گے، جب آپ مذاہب کے تقابلی جائزہ کا مطالعہ یعنی comparative study of religion کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ دین جو ہے یہ صرف ’’یومِ الدین‘‘ ہے اور یہ دن ہو گا جب آپ کا حساب ہو گا۔ جس چیز کو ہم زندگی میں استعمال (operate) کرتے ہیں وہ ہے مذہب (practice)، آپ کا راستہ، آپ کا انداز، آپ کا طرزِ زندگی، آپ کا اندازِ فکر۔ اگر یہاں میں آپ سے سوال کروں کہ مذہب کیا چیز ہے، توآپ زیادہ سے زیادہ بھی عقل و شعور کی بات کریں تو کہیں گے کہ یہ ایک راستہ ہے۔ آپ اس کو منسوب کریں گے شریعت سے، شرع سے، اس سے زیادہ نہیں۔ comparative study of religions کی سائنس کہتی ہے کہ مذاہب کو دو طرح سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ مذاہب ہیں جن میں بعد از موت کا تصور نہیں جبکہ دوسری قسم کے مذاہب میں حیات قبل از پیدائش اور حیات بعد از موت کا تصور ملتا ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔