عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 116
اب قاسم نے شاگال پر حملہ آور ہونے کے لیے جونہی قدم آگے بڑھایا شاگال کسی مینڈک کی طرح اچھل کر مارسی کے نزدیک جا ٹپکا۔ اگلے لمحے اس نے مارسی کی گردن دبوچ لی اور اپنی انگارہ آنکھوں سے شرارے برساتے ہوئے کہا
’’تلوار پھینک دو قاسم بن ہشام! ورنہ میں تمہاری محبوبہ کا منکا توڑ دوں گا۔‘‘
قاسم کی نظر مارسی پر پڑی اور وہ یہ دیکھ کر دہل گیا کہ مارسی کی آنکھیں اپنے حلقون سے باہر ابل رہی تھیں اور وہ کسی چڑیا کی طرح سرخ آنکھوں والے دیو کے پنجے میں جکڑی چیخ تک نکالنے سے بھی معذور تھی۔ قاسم سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اس نے فورا اپنی تلوار پھینک دی۔ قاسم کے تلوار پھینکنے کی دیر تھی کہ شاگال، مارسی کو چھوڑ کر کسی پاگل ہاتھ کی طرح قاسم پر حملہ آور ہوا۔ قاسم شاگال کے وار سے بچنے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ شاگال نے اپنے کلہاڑے کے دستے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پوری قوت کے ساتھ قاسم کے سر پر دے مارا لیکن قاسم پلک جھپکتے نیچے سے ہٹ گیا۔ شاگال کا کلہاڑا پورے زور سے جہاز کے پیندے پر پڑا اور جہاز کے پیندے میں لگا۔ ایک بھاری بھر کم تختہ ٹوٹ گیا شاگال کے بدن میں کسی سانڈ کی طاقت تھی اور اس کی ظاہری اچھل کود بھی کسی چست نوجوان سے کم نہ تھی۔ اس کا کلہاڑا جہاز کے پیندے میں پیوست ہوا اس نے اپنا کلہاڑا واپس کھینچنے اور قاسم پر دوسرا وار کرنے میں دو ثانئے سے زیادہ دیر نہ لگائی۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 115 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم کو توقع نہ تھی کہ شاگال اس قدر پھرتیلاثابت ہوگا۔ چنانچہ قاسم کے لیے شاگال کے دوسرے داؤ سے بچنا پہلے کی نسبت زیادہ مشکل تھا۔لیکن پھر بھی قاسم کی قسمت نے اس کا ساتھ دیا ور شاگال کا وار خالی چلا گیا۔ کلہاڑا ایک مرتبہ پھر جہاز کے پیندے کو چیرتا ہوا نیچے تک چلا گیا۔ پیندے کے ٹوٹے ہوئے تختوں میں پیدا ہو جانے والے رخنوں کے راستے سمندر کا پانی جہاز میں بھرنا شروع ہوگیا۔ باسفورس کا نیلا پانی انتہائی تیزی کے ساتھ تہہ خانے میں داخل ہو رہا تھا۔
جبکہ شاگال قاسم کے خیال میں پاگل ہو چکا تھا کیونکہ وہ پے در پے قاسم پر دیوانہ وار حملے کئے جا رہا تھا۔ قاسم نہتا تھا۔ وہ ہر وار بچانے کے لیے کسی نہ کسی طرف جھکائی دیتا اور پھر تہہ خانے میں بھر جانے والے پانی کی وجہ سے قاسم کا پاؤں پھسلا اور وہ تہہ خانے میں موجود پانی پر آہا۔ شاگال کا کلہاڑا قاسم کے گرتے ہی پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو چکا تھا۔ وہ گرے ہوئے قاسم پر برق آسمانی بن کر گرا اور جہاز کے پیندے کو مزید پھاڑ دیا۔ اب تو سمندر کا پانی کسی نل کیطرح اندر آرہا تھا اور جہاز غرق ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا۔ لیکن قاسم کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ خالی ہاتھ اس دیو ہیکل کلہاڑا باز کا مقابلہ کر سکے۔چنانچہ قاسم مسلسل شاگال کے واروں سے خود کو بچاتا رہا۔ اور ایک وقت وہ آیا جب تہہ خانے میں ایک فٹ سے زیادہ پانی بھر گیا اور قاسم کے لیے شگال کے واروں سے خود کو بچانا مزید مشکل ہوگیا۔ قاسم خود کو بچاتا بچاتا ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے حملہ کرتے ہوئے شاگال کو مارسی نظر نہ آسکتی تھی۔ چنانچہ مارسی نے سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا اور تہہ خانے کے اندر موجود سمندر کے پانی میں جھلمل کرتی قاسم کی شمشیر اٹھا لی۔
شاگال۔ مارسی کی کارروائی سے بالکل بے خبر تھا۔ مارسی کے لئے آواز پیدا کئے بغیر شاگال تک پہنچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ پانی میں چلتے ہوئے چھپ چھپ کی واضح آواز سے شاگال کا چونک جانا لازمی تھا۔
لیکن ادھر وقت بھی بہت کم تھا۔ جہاز کسی وقت بھی غرق ہو سکتا تھا۔ چنانچہ مارسی نے آواز کی پرواہ کئے بغیر شاگال کی طرف دوڑ لگا دی اور اس سے پہلے کہ شاگال قاسم پر آخری اور کامیاب وار کرتا۔۔۔ مارسی اسکے سر پر پہنچ گئی۔ شاگال کا کلہاڑا قاسم پر قہر بن کر گرنے کے لئے فضا میں اٹھا۔ لیکن فضا سے نیچے کی طرف واپس نہ آسکا۔ کیونکہ مارسی کی تلوار شاگال کی کمر میں گھس کر اس کے پیٹ کی جانب سے نکل گئی تھی۔ شاگال کے اٹھے ہوئے ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے اور نیچے سے قاسم تڑپ کر ایک طرف ہٹ گیا۔ تلوار شاگال کے پیٹ میں ترازو ہو چکی تھی اور وہ کسی ذبح ہوتے ہوئے بیل کی طرح ڈکرا رہا تھا۔
تہہ خانہ کمر تک پانی سے بھر چکا تھا۔ اب کسی لمحے جہاز غرق ہونے والا تھا ۔ چنانچہ قاسم اور مارسی نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تہہ خانے سے نکلنے کا اشارہ کیا اور ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے۔ لیکن مارسی کے لئے پانی میں چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح پاؤں گھسیٹتی ہوئی مارسی تہہ خانے کی سیڑھیوں تک قاسم کے ہمراہ پہنچ گئی۔ شاگال کے ڈکرانے کی آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔
قاسم اور مارسی دوڑتے ہوئے تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھ کر باہر آئے اور جہاز کے ساتھ بندھی ایک روایتی کشتی تک پہنچنے کے لیے تیزی سے جہاز کی عقبی سمت کی جانب بڑھنے لگے۔ اور ٹھیک اس وقت جب قاسم اور مارسی کشتی تک پہنچے۔ جہاز کا پیندا مکمل طور پر پانی سے بھر گیا اور جہاز پانی میں بیٹھنے لگا۔ جہاز کے بادبان کھلے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہوا کہ دباؤ نے جہاز کو تیزی کے ساتھ ڈوبنے میں مدد دی۔ کشتی کے نزدیک پہنچ کر قاسم نے احتیاط کے ساتھ پہلے مارسی کو کشتی میں سوار کروایا اور اس کے بعد خودکشتی میں بیٹھ کر جہاز کی چرخیوں کے ساتھ بندھی کشتی کی رسی کاٹ دی۔ کشتی جہاز کے عقبی تختوں سے سرکتی ہوئی زور دار آواز کے ساتھ پانی میں جا گری۔ قاسم نے فوراً چپو مارنے شروع کر دیئے اور جلد ہی کشتی کو سنبھال لیا۔ اب مارسی اور قاسم اطمینان کے ساتھ باسفورس کے گہرے پانی میں شاگال کا جہاز غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
ادھر ہپوڈروم کے جلسے میں سلطان نے قسطنطنیہ کے تمام شہریوں کے لئے امن و امان کا عام اعلان کیا۔ جو لوگ اپنے مکانوں اور جائیدادوں پر قابض و آباد رہے اور جنہوں نے بخوشی اطاعت قبول کرلی۔ ان کو اور ان کے اموال کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچایا گیا۔ عیسائیوں کے کلیساؤں کو ماسوائے آیا صوفیاء کے ان کے حال پر قائم رہنے دیا اور عیسائیوں کے تصرف میں رکھا۔ قسطنطنیہ کے بطریق اعظم کو سلطان نے اپنی خدمت میں بلا کر خوشخبری سنائی کہ۔۔۔’’آپ بدستور یونانی چرچ کے پیشوا رہیں گے۔ اور آپ کے مذہبی اختیارات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہ کی جائے گی۔ ‘‘ سلطان محمد فاتح نے خود یونانی چرچ کی سرپرستی قبول کی اور بطریق اعظم کو وہ اختیاررات دے دیئے جو عیسائی سلطنت میں بھی اس کو میسر نہ تھے۔(جاری ہے )