صدارتی اختیار

صدارتی اختیار
صدارتی اختیار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ دنوں صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب کی تقریر سنی تو انکشاف ہوا کہ وہ خوشامد کا فن بھی نہیں جانتے۔ پاکستان میں دو طرح کے صدر پائے جاتے رہے ہیں۔ ایک وہ صدر جن کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان میں آپ صدر جنرل ایوب خان، صدر جنرل یحییٰ خان، صدر جنرل ضیاالحق اور صدر جنرل پرویزمشرف کو شامل کر سکتے ہیں۔ ایسے صدور کے لئے جنرل ہونا ضروری ہے۔ دوسری قسم کے وہ صدر ہوتے ہیں جن کا حکم صدر ہاؤس میں بھی خاصی مشکل سے چلتا ہے۔ جناب بھٹو کے صدر فضل الٰہی چودھری کے متعلق کسی ستم ظریف نے صدر ہاؤس کی دیوار پر ہی یہ نعرہ لکھ دیا تھا کہ ”صدر کو رہا کرو“۔ جناب ممنون حسین بھی صدر پاکستان رہے ہیں۔ ان کی شرافت کا ذمہ دار لوگ میاں نوازشریف کو ٹھہراتے تھے۔ ہم نے ایک ایسے قائم مقام صدر کے متعلق بھی سنا ہے جو پورے پروٹوکول کے ساتھ کراچی میں اپنی دوسری بیوی سے ملاقات کے لئے گئے تھے۔ مگر ان کی بیوی نے انہیں صدر ماننے سے انکار کر دیا۔ دروازہ نہ کھلنے کے بعد پروٹوکول کے ہجوم میں اس کوچے سے وہ بڑے بے آبرو ہو کر نکلے۔


مگر جناب عارف علوی صاحب نے تو کمال کر دیا۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اگر وہ ضد کر بیٹھیں تو صدر کے عہدے کی عزت کو متنازعہ بنا سکتے ہیں۔ صدر عام طور پر وزیراعظم کی تعریف کرتے پائے جاتے ہیں۔ انہیں اس مقصد کے لئے رکھا جاتا ہے کہ وہ ہر سال کے بعد پارلیمنٹ میں آئیں اور حکومت کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ عارف علوی صاحب نے صرف ڈینٹل سرجری کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اگر انہوں نے شہاب نامہ پڑھا ہوتا تو پھر بھی ان سے یہ غلطی سرزد نہ ہوتی جس سے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گیا ہے اور کچھ مخبروں کے مطابق بعض قابل مشیر وزیراعظم کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صدر کی تقریر ان کے خلاف سازش تھی۔ صدر نے حکومت کی ایسے زوردار انداز میں تعریف کی کہ حکومت کا ہر کارنامہ مشکوک ہو گیا۔


قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سرکاری افسروں سے جو پہلی میٹنگ کی اس میں ڈانٹ ڈپٹ کے لہجے میں بڑی اچھی باتیں کیں۔ انہوں نے کہا  ”تم سول سرونٹ بڑے خوشامدی اور چاپلوس لوگ ہو۔ تم ہر نئے حکمران کی ہاں میں ہاں ملا کر اسے غلط راستے پر لگاتے ہو۔ تم اخلاقی جرات سے عاری ہو۔ صحیح رائے دینے سے احتراز کرتے ہو۔ خوشامد اور جی حضوری سے کام لے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہو۔ لیکن اب خبردار ہو جاؤ میں سیدھا سادہ آدمی ہوں میرے ساتھ صاف گوئی سے کام لینا ہو گا۔ میں تمہارے ہتھکنڈوں میں نہیں آؤں گا۔ میں اپنی خوشی سے صدارت کی کرسی پر نہیں بیٹھا۔ تم لوگوں کی مہربانی سے ایوب خان ناکام ہو گیا۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے اسے بچانے کا فرض مجھ پر عائد ہوتا ہے۔“


دس پندرہ منٹ اس قسم کی معقول باتیں کرکے یحییٰ خان خاموش ہو گیا۔ پھر سول سروس کے ہیڈپوپ مسٹر ایم ایم احمد نے لب کشائی کی۔ انہوں نے کھڑے ہو کر نمازتوبہ کی نیت تو نہ باندھی لیکن بڑے خضوع و خشوع سے اعتراف جرم کا خطبہ دیا کہ بے شک سول سرونٹس سے بڑی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن الحمداللہ اب اللہ تعالیٰ نے ملک پر رحم فرمایا ہے۔ ان شاء اللہ آپ جیسا ناخدا ڈوبتی ہوئی کشتی کو نصیب ہو گیا ہے۔ ان شاء اللہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔


یہ خوشامد کا ایک تخلیقی انداز تھا۔ قدرت اللہ شہاب کے الفاظ میں ”یحییٰ خان نے اپنا گول مٹول سر ہلا ہلا کر چاپلوسی کا یہ نذرانہ بڑی گرم جوشی سے قبول کیا۔ اس کی گدلی گدلی آنکھوں سے فخرومباہات کی شعاعیں پھوٹ نکلیں۔ اس کا نیلا نیلا پیلا پیلا سوجا ہوا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔“پاکستان میں خوشامد کا یہ انداز نت نئی اختراعات کے ساتھ ہر دور میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر صدر مملکت عمران خان کی محبت میں کچھ اتنے بڑھ گئے کہ بعض لوگوں کو وہ رسوائی کی دہلیز پر کھڑے نظر آئے۔


پارلیمانی نظام میں صدر کا عہدہ نمائشی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر پاکستان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدر پاکستان کو اپنی مرضی سے دل کھول کر حکومت کی تعریف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جناب عارف علوی صاحب کو کچھ دانش ور قسم کے لوگ یہ باور کرائیں کہ ان کی تقریر سے جناب وزیر اعظم خوش ہیں اس لئے انہیں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ میڈیا اور عوام تو ہر بات پر تنقید کرتے ہیں۔ امریکی صدر انتہائی طاقتور ہوتا ہے مگر جب سینئر بش نے اپنی صدارت کے دوران بروکلی نامی سلادسبزی کے صدر کے جہاز میں داخلے پر پابندی لگائی تو اس پر امریکہ میں کافی احتجاج ہوا۔ اس پر خاتون اول باربرابش نے اپنے صدر شوہر کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ”بروکلی صحت کے لئے بہت مفید ہے اور امریکی بچوں کو یہ سبزی ضرور کھانی چاہیے۔ صدر بش کو ان کی والدہ یہ سبزی زبردستی کھلاتی رہی ہیں۔ مگر اب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو چکے ہیں اور انہیں اپنے فیصلے کرنے کاخوداختیار ہے۔ اب انہوں نے بروکلی نہ کھانے کا فیصلہ کیا ہے۔“


جناب عارف علوی صاحب بھی صدر پاکستان ہیں اور اگر وہ حکومت کے حق میں تقریر کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ ان کا صدارتی حق ہے مگر بہرحال یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ صدر پاکستان کو اپنا یہ اختیار کس حد تک استعمال کرنے کی اجازت ہے؟

مزید :

رائے -کالم -