کارکنوں کی سیاست
نظری سطح پر دیکھا جائے تو سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے، لیکن عملی طور پر ہماری سیاست قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہر سیاست دان کی نظر الیکشن پر ہوتی ہے جن غریب اور مسائل میں گھرے عوام کے نام پر ہمارے سیاست دان اسمبلی میں پہنچتے ہیں، اسمبلی میں پہنچنے کے بعد وہ انہیں کبھی دکھائی ہی نہیں دیے۔کسی کے کندھے پر سوار شخص کو وہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے، جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن وہ شخص کبھی نظر نہیں آتا جس کے کندھے پر وہ سوار ہوتا ہے:
ہم نے بٹھا رکھا ہے جنہیں اپنے دوش پر
ہم لوگ بس انہی کو دکھائی نہیں دیے
شاید یہی سبب ہے کہ ہمارے عوام کے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔کوئی ان کی آنکھوں کے آنسو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا یہاں ٹکٹ اسے ملتا ہے جو پارٹی کو فنڈ دے سکتا ہو۔پارٹیوں کے سربراہ، غریب کارکنوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں لیکن جب ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو مالدار افراد کی طرف ہاتھ بڑھا دیا جاتا ہے،یہ عمل پچھلے ستر برسوں سے جاری ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری سیاسی پارٹیوں کے سربراہِ خوش قسمت ہیں کہ ان کو ہر دور میں لڑنے، مرنے، جیلوں میں جانے،مار کھانے اور کوڑوں کی صعوبت برداشت کرنے والے کارکن میسر رہتے ہیں۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے وہ رنگ جمایا کہ ان کے نام پر جان قربان کرنے والے کارکن آج بھی موجود ہیں۔اگرچہ ان کی پارٹی میں بھی جاگیرداروں، صنعت کاروں، وڈیروں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹوں کی کمی نہ تھی، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بھٹو لوورز آج بھی موجود ہیں آج بھی آپ پنجاب یا سندھ کے کسی شہر میں سڑک پر جا رہے ہوں تو کسی نہ کسی جگہ کوئی ایسا دیوانہ ضرور نظر آ جائے گا جس کی بائیسکل، کار، رکشے یا ٹرک پر بھٹو کی تصویر یا ان کی پارٹی کا ترنگا ہو گا۔بھٹو کے بعض دیوانے تو ایسے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو آج بھی بھوک اور غربت کا شکار ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ کبھی نہ کبھی سچ ثابت ہو کر ہی رہے گا۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو سے زیادہ، زرداری کے نظام زر کے زیر اثر ہے، لیکن پارٹی کارکن آج بھی بھٹو سے کیا گیا عہد ِ وفا نبھا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرمایہ داروں کے ساتھ بہت سے کارکنوں کو بھی اسمبلی میں لانے کی مخلصانہ کوشش کی تھی، جس کی وجہ سے اس پارٹی کے کارکن ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہیں۔
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادہئ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
پیپلز پارٹی نے پاکستانی سیاست کو بہت سے کارکن دیے جو اسمبلیوں میں بھی پہنچے اور سیاست کے افق پر نامور بھی ہوئے ان میں مختار اعوان، جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، قمر زمان کائرہ اور اسلم گل کے نام نمایاں ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست ابتدا میں کاروباری اور تاجر رہنماؤں کے گرد گھومتی تھی، لیکن اب اس پارٹی کے بڑوں کو بھی سیاسی کارکنوں کی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے۔لیگی قیادت ہمارے لگے بندھے اور مسلمہ نظام کے زیر اثر صاحبانِ ثروت پر بھی توجہ دیتی ہے، لیکن میاں محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو کھلتا ہے کہ وہ گلی محلوں میں رہنے والے سیاسی کارکنوں سے بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔میں لاہور کے اس حلقے میں رہتا ہوں جہاں سے کئی دفعہ میاں محمد نواز شریف جیتے ہیں۔آخری بار یہاں سے بیگم کلثوم نواز ایم این اے کا الیکشن جیتی تھیں آج یہ پارٹی مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہے، لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز اپنے کارکنوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔انہیں تھپکی دیتے ہیں یہ دراصل کارکنوں کی جیت ہے کارکن باشعور ہو تو وہ اپنے لیڈر کو اپنی طرف بلانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔
حمزہ شہباز خوش قسمت ہیں کہ لاہور کی احتساب عدالتوں میں جب بھی ان کی پیشی ہوتی ہے کارکن ان کے استقبال کے لیے پہنچ ہی جاتے ہیں یہ سب کارکن صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر آتے ہیں دھکے کھاتے ہیں نعرے لگاتے ہیں، مسلم لیگ کے ایک کارکن سید محمد عظمت کو تو میں بھی جانتا ہوں جس نے مخالف پارٹی کے دور میں ”باؤ جی کی کلثوم“نامی کتاب لکھی، حمزہ شہباز کی کوئی ایسی پیشی نہیں، جس میں سید محمد عظمت پیش پیش نہ رہا ہو کاروباری لوگوں، تاجروں اور صنعت کاروں کی پارٹی اب کارکنوں کے بل پر چل رہی ہے اسے اچھی طرح احساس ہو چکا ہے کہ کارکنوں کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی روش اپنا لے تو اس کی جڑیں عوام کے اندر مزید گہری ہو سکتی ہیں۔پہلی بار حکومت بنانے والی جماعت پی ٹی آئی کے کارکن تاحال شکوہ کناں ہیں کہ انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا، جس کے وہ مستحق تھے۔ جماعت ِ اسلامی واحد جماعت ہے، جو اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی کرتی ہے اور انہیں انتخابی عمل کا حصہ بھی بناتی ہے۔