امیدوار.... انتخابات اور بے بس شکار

امیدوار.... انتخابات اور بے بس شکار
امیدوار.... انتخابات اور بے بس شکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ویسے تو نفسا نفسی کے اِس عالم میں جنازوں میں شرکت مرحوم کے کوائف سے مشروط ہو چکی ہے، لیکن خبر ملی ہے کہ الیکشن کے امیدواروں نے باقاعدگی کے ساتھ جنازوں میں شرکت شروع کردی ہے۔ خیر خواہی اور عوام کے جذبوں سے سرشار بعض تو ایسے بھی ہیں کہ گلی محلوں میں مخبر چھوڑ دیئے ہیں تاکہ مرنے والوں کے کوائف، متوقع ووٹوں کی تعداد اور جنازے کے وقت جیسی معلومات بروقت دستیاب ہوں اور جب وہ کلاشنکوف بردار باڈی گارڈوں کے جلو میں جنازے میں جلوہ افروز ہوں تو بینڈ باجے کی چمک بھی ماند پڑ جائے اور مرحوم کے لواحقین اس طرح کے رعب دبدبے اور طاقت سے پھولے نہ سمائیں تو اعتراض کیوں.... ہم اہل توحید تو ضرور ہیں، لیکن پجاری صرف طاقت کے ہیں بعض لواحقین تو ایسے کہ زندگی بھر بھول نہ پائیں اور جب بھی موقع ملے بتاتے ہوئے پائے جائیں کہ ابا جی کے جنازے میں فلاں شخصیت تشریف لائی اور امی جی کے جنازے کی رونق فلاں شخصیت نے دوبالا کی۔
بعض تو ایسے احمق یا سادہ لوح کہ شاید دل میں سوچیں کہ اگر بزرگوں نے فوت ہی ہونا ہے تو الیکشن سے پہلے کیوں نہیں، کیونکہ کلاشنکوف برداروں کے جنازے کے ساتھ مارچ کرنے سے علاقے میں رعب قائم ہو۔ عوام خوفزدہ ہوں اور لواحقین کے رعب دبدبے اور شان و شوکت کے محل تعمیر ہو جائیں، لیکن کسی نے شاذ ہی سوچا کہ متوفی کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ خوشیاں لواحقین منائیں، لیکن حساب تو متوفی کا ہی ہونا ہے۔ اگر کہیں پوچھ لیا کہ اہل جنازہ کا تمہارے ساتھ بھی تو کوئی تعلق رہا ہو گا اور کیوں نہ انہیں تمہارا ساتھی اور مددگار سمجھا جائے تو متوفی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لواحقین کو اِس پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے، کیونکہ مرنا تو آخر سب نے ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن کے امیدوار اِن دنوں کافی خوش اخلاق ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کو دیکھتے ہی مسکرانے لگتے ہیں اور بسا اوقات بغل گیر ہونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ سیانے کہتے کہ بعض اقسام کی مسکراہٹ خطرناک ہوتی ہے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ بعض بادشاہ کسی کو قتل کرنے سے پہلے مسکرانے لگتے تھے۔ کیا معلوم مسکرانے والے کے دل میں کیا ہو، اس لئے عوام کو مسکرانے والے امیدواروں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ بغل گیر ہونے والی بات کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ عوام کی اکثریت مہنگائی کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہے، امیدواروں کی صحت کا تو عوام کو بخوبی علم ہے۔ اگر کسی ہٹے کٹے امیدوار نے کسی کمزور اور مریل عام آدمی کی بغل گیر ہونے کی عیاشی میں ہڈیاں توڑ دیں تو اُسے علاج بھی اپنے خرچے پر کرنا پڑے گا۔ اگر کوئی امیدوار زبردستی بغل گیر ہونے کی کوشش کرے تو فوراً بیٹھ جائیں یا بیماری کا بہانہ کر کے، ہائے ہائے کریں، اُس وقت تک جب تک خطرہ ٹل نہ جائے۔
مسکراہٹ کے بارے میں یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ شکاری اپنے شکار کو دیکھ کر بھی مسکراتا ہے، اسی طرح قصاب بھی جانور ذبح کرنے سے پہلے چہرے پر ہمدردی کی مسکراہٹ ضرور لاتا ہے۔ شکار اور شکاری کی بات کے سلسلے میں مجھے چند روز پیشتر شکاریوں کی گفتگو یاد آ گئی۔ایک شکاری کہہ رہا تھا کہ اب پرندے ہوشیار ہو گئے ہیں، تمام قسم کی ترغیب کے باوجود جال سے دور رہتے ہیں۔ دوسرا شکاری شکوہ کر رہا تھا کہ خرگوش بھی اب پہلے سے تیز بھاگتے ہیں، شکاری کتوں کے قابو نہیں آتے۔ تیسرا شکاری بھی ہاں میں سر ہلا رہا تھا اور ساتھیوں کو بتانے لگا کہ زمانہ بدل گیا ہے، اب پہلے والا شکار کہاں۔ شکار کو بھی نئی ہوا لگ گئی ہے۔ انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ عوام امیدواروں کی مسکراہٹ کے جال میں پھنستے ہیں اور ان کی خوش اخلاقی اور جنازوں میں شرکت جیسی دریا دلی سے متاثر ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ جس طرح جنگلی شکار قابو نہیں آ رہا اور اسے تبدیلی کی ہوا لگ گئی ہے، اسی طرح عوام بھی آسانی سے شکار ہونے کے موڈ میں نہیں ہیں، بلکہ عوام تو شکاریوں سے دو قدم آگے جا چکے ہیں۔
گزشتہ انتخابات کے تجربات بتاتے ہیں کہ عوام شکار ہونے کی بجائے اب شکاری کے ساتھ اشتراک کر لیتے ہیں۔ مُک مکا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات اور کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں۔ شکار اور شکاری نے اب تیسرا راستہ نکال لیا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں اور تیسرے شکار کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ عوام جیسے ہی شکار منتخب کر لیتے ہیں، یہ ایک ایسے شکار پر پنجے گاڑتے ہیں، جو بے بس بھی ہے اور مفلوج بھی۔ یہ شکار بے زبان بھی ہے اور صبر و استقامت سے ظلم سہنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ یہ باہمی گٹھ جوڑ سے بے زبان شکار کا شکار کرتے ہیں۔ جب چاہے نشان لگاتے ہیں، اس کو جی بھر کر کھاتے ہیں، لیکن ان کا جی پھر بھی نہیں بھرتا۔ بے زبان شکار کو لوٹنے اور کھانے کے ساتھ ساتھ یہ کرپشن، کرپشن کا شور بھی ڈالتے رہتے ہیں اور بے زبان اور لاچار شکار بے بسی کی تصویر بنا رہتا ہے۔ اِس طرح لوٹنے، زخم لگنے اور اس کا خون پینے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ایک کام اور بھی کرتے ہیں۔ اِس بے بس شکار کے لئے ترانے لکھتے ہیں اور ترنم کے ساتھ گاتے ہیں، اِس سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ اُٹھتے بیٹھتے اور جلسے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ بے بس شکار زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔       ٭

مزید :

کالم -