کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب!

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب!
 کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب!
کیپشن: rotireen

  

 ہمیں جو کھانا کھلایا گیا وہ بہت پر تکلف تھا۔ پتہ نہیں اس کے لئے انتظام کیسے کیا گیا تھا، اس میں بریانی، مٹن قورمہ، مرغ قورمہ، باجرے کے پراٹھے، گرلڈ گوشت اور کسٹرڈ بھی شامل تھے، ایک سالن جو ہمارے لئے نیا تھا اور لذیز بھی تھا ایک مخصوص درخت کی پھلیاں پکا کر تیار کیا گیا تھا۔ پھلیاں باریک تھیں۔ وہ درخت مجھے دور سے دکھایا گیا تھا اور اس کا نام بھی بتایا گیا تھا، لیکن تلفظ صاف نہ ہونے کی وجہ سے مَیں نے یہ نام سمجھنے اور یاد کرنے کی کوشش نہ کی۔

بن ہار کی اس ضیافت نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا اور اس نے سابقہ رات والے جشن طعام و موسیقی کو بھی ماند کردیا جو کنری کی آبادی سے باہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر کھیتوں میں واقع ایک کوٹھی میں منعقد کیا گیا تھا۔ سندھی اور پشتو میں ایسی کوٹھی کو اطاق کہتے ہیں اور پنجابی میں ڈیرہ کہتے ہیں۔

 اطاق کی ضیافت میں گوشت خوروں کے لئے گوشت کے سالن اور سبزی خوروں کے لئے سبزیاں تھیں، لیکن کھانے والے لوگ دونوں قسم کے کھانوں کی میزوں کے گردیوں منڈلا رہے تھے کہ کوئی پتہ نہیں لگتا تھا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ ایک ہندو ہاتھوں سے کباب پکڑ پکڑ کر مسلمانوں کی پلیٹوں میں ڈال رہا تھا اور خود بھی انہی کی میزوں پر سے کھانا کھا رہا تھا۔ شکل و شباہت بول چال اور لباس کی وضع قطع سب کی ایک جیسی تھی۔ مذہب کی تفریق وہاں تھی ہی نہیں، اگر کوئی تنگ نظر پتہ کرنا چاہتا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان تو صرف ناموں ہی سے اندازہ لگاسکتا ہے اور وہ بھی مشکل سے کیونکہ خوشحال نام ہندو کا بھی ہوسکتا ہے اور مسلمان کا بھی، مزید برآں عیسائیوں کے نام اسلامی بھی ہوسکتے ہیں اور ہندوانہ بھی۔بعض لوگوں نے ہمیں السلام علیکم کہا اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہندو ہیں، جس میزبان کے گھر میں میرے علاوہ دونوں سابق ڈسٹرکٹ گورنر اور روٹیرین شہزادہ کبیر احمد(سابق ڈسٹرکٹ وسیشن جج) ٹھہرے تھے، وہ ہندو تھا۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا اور زمیندار بھی تھا۔ جشن ِ رفاقت اسی کے اطاق میں ہوا تھا اور اس کا خرچ اگر پورا نہیں تو بہت حد تک اس نے خود برداشت کیا تھا۔ اس کے ہندو ہونے کا پتہ ہمیں صرف اس کے نام ڈاکٹر نارائین داس موہانہ سے لگا تھا اور نوکر کے ہندو ہونے کا پتہ بھی اسکے نام پرکاش سے لگا تھا۔ باتوں باتوں میں روٹیرین نارائین داس سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج (اب سابق)مسٹر جسٹس بھگوان داس کا رشتہ دار نکلا۔

 موسیقی کے پروگرام میں ریڈیو سٹیشن حیدر آباد کی فنکارہ مہتاب کنول نے سندھی، تھری ، پنجابی اور اردو کے گانوں کا ایسا جادو جگایا کہ وہ خود ریگستان کے اندر واقع کسی مہتابی جھیل کا کنول لگتی تھی اور اس کے گانے عالم ِ لاہوت سے نکل نکل کر برستے معلوم ہوتے تھے۔ بایں ہمہ جس خاص گانے نے سب کو مبہوت کر کے رکھ دیا وہ روٹیرین شالم( کرسچن) نے ہندو مسلم نوجوانوں کے ساتھ مل کر کورس کی شکل میں گیا تھا اور اس کے ساتھ دھمال بھی ڈالی تھی، یہ گانا لاہور کے مسلم صوفی شاعر شاہ حسین المعروف مادھولال حسین ؒ کی پنجابی کافی تھا اور اس کے بول تھے:

”گھم چرخڑا سائیاں دا

تیری کتن والی جیوے

نلیاں وٹن والی جیوے

بین المذاہبی حمد اس سے بہتر ہوسکنی مشکل ہے،۔ آئندہ جب میری بین المذاہب وبین الاقوامی فیڈریشن فار ورلڈ پیس (واشنگٹن) کا اجلاس لاہور میں ہوگا، تو مَیں اس کافی کو بطور خاص گانے کے پروگرام میں شامل کرواﺅں گا۔ سندھ اور پنجاب کے صوفیانہ کلام ان کے تمدنوں کی قدرِ مشترک ہیں۔ کنری کی مذہبی رواداری کا ایک سچا لطیفہ یہ ہے کہ پنجاب کے کچھ مولوی (جن میں میرے اپنے گاﺅں کا ایک باشندہ بھی شال تھا) کنری میں مسلمانوں کو تبلیغ کرنے جانکلے۔ بازار کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک دکان داروں کو کہتے چلے گئے کہ بھائی صاحب! مغرب کی نماز ادا کرنے مسجد میں ضرور آنا۔ جب آخری سرے پر جا پہنچے تو ایک شخص نے(جو وضع قطع سے مسلمان لگتا تھا، لیکن دراصل ہندو تھا) انہیں بتایا کہ آپ نے جتنے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے، وہ سب ہندو ہیں اور اسی طرح نیک ہندو ہیں، جس طرح یہاں کے مسلمان نیک مسلمان ہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ آپ کی تبلیغ کی ضرورت یہاں ہے یا کسی اور جگہ اور اگر تبلیغ یہاں کرنی ہے تو کس قسم کی کرنی چاہئے۔

مَیں نے یہ واقعہ اپنے ساتھیوں کو سنایا تو پی ڈی جی محسن نے کہا کہ مَیں نے ہندو مسلم اتحاد کا ایسا ہی مظاہرہ ٹراونکور (جنوبی ہندوستان) میں بھی دیکھا تھا۔ وہاں کی روٹری کانفرنس میں ایک مقامی مندوب نے (جو کہ ہندو تھا) مجھے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ کل کا ناشتہ میرے ساتھ کریں۔ ماما نے سب انتظام کر لیا ہے اور وہ کسی صورت بھی آپ کی غیر حاضری معاف نہیں کریں گی۔ جب مَیں اگلی صبح اس ہندو کے ساتھ ناشتہ کرنے گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دیواروں پر اسلامی کتبے لگے ہوئے تھے۔ مَیں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ ماما مسلمان ہیں۔ ہم محلے کے سب ہندو انہیں احتراماً ماما کہتے ہیں۔ جب مَیں نے ماما سے حالات دریافت کئے ، تو اس نے بتایا کہ دیوالی کے موقع پر میرا گھر ہندوﺅں کے گھروں سے بھیجی گئی مٹھائیوں سے بھر جاتا ہے اور عید کے دن یہی گھر ان ہندوﺅں سے بھر جاتا ہے، جو عید مبارک کہتے ہوئے سوئیاں کھانے آ جاتے ہیں۔ سابق ڈٹرکٹ گورنر نے یہ بھی بتایا کہ ایک ہندو کے گھر میں بیٹی کی شادی ہوئی تو دلہن کا کنیا دان (رخصتی کا کام) میرے ہاتھوں سے کروایا گیا۔

ایک اور صاحب نے ایسے ہندو مسلم اتحاد کے برعکس شیعہ سنی تفریق کا یہ دلخراش واقعہ بتایا کہ مَیں اور میرے دو تین ساتھی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جانا چاہتے تھے۔ شہر سکردو کا تھا۔ ہم نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ مسجد کدھر ہے؟ اس نے کہا کہ کن لوگوں کی مسجد؟ ہم نے کہا مسلمانوں کی مسجد۔ اس نے پوری سنجیدگی سے کہا کہ ایسی مسجد تو یہاں کوئی نہیں ہے۔ صرف دو مسجدیں ہیں۔ ایک شیعوں کی، دوسری سنیوں کی، مسلمانوں کی مسجد کوئی نہیں ہے۔

کنری سے بن ہار جاتے ہوئے ایک قصبے (کانٹیو) میں رکے تو وہاں کا مندر دیکھنے کا موقع ملا۔ مندر پر اردوزبان میں ”کرشن مندر“ لکھا ہوا تھا اندر جو مورتی تھی اس میں کرشن جی کو تو حسب معمول بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہوا تھا، لیکن رادھا کوسر سے لے کر پاﺅں تک ایک چادر میں لپٹا ہوا دکھایا گیا تھا۔ صرف ایک آنکھ اور ایک رخسار دکھائی دیتا تھا۔ یہ عجوبہ مقامی تمدن کے زیر اثر لگتا تھا۔ اس سے پہلے مَیں ہندوستان میں کئی ہندو مندر اور جین مندر اور پھر تھائی لینڈ میں بدھ مندر بھی دیکھ چکا ہوا تھا۔ ان میں کانگڑہ کے علاقے میں واقع جوالا مکھی کا مندر بھی شامل ہے، جس کی چھت پر اکبر بادشاہ نے سونے کا چھتر نصب کروایا ہوا ہے۔ ان ہندو مندروں میں مجھے بحیثیت مسلمان صحن میں تو جانے دیا گیا تھا، لیکن مورتی والی جگہ کے نزدیک قدم نہیں رکھنے دیا گیا تھا۔ مورتی صرف دروازے میں سے دکھائی گئی تھی۔ اس کے برعکس یہاں سندھ میں مسلمانوں کو عین مورتی تک جانے کی دعوت دی گئی تھی۔

واپسی پر ہمیں عمر کوٹ کے قلعے میں چائے پلائی گئی اور کیک پیسٹری وغیرہ سے بھی تواضع کی گئی۔ یہ انتظام وہاں کے ایک ہندو نے کیا تھا، جو مقامی روٹری کا ممبر تھا اور بیکری کی دکان چلاتا تھا۔ قلعے کے اندر فوج کی طرف سے بنوائی گئی ایک برجی پر لکھی ہوئی عبارت سے پتہ لگا کہ1965ءکی ہندو پاک جنگ کے دوران ہندوستان کی فوج نے عمر کوٹ کے نواحی علاقے تک پیش قدمی کر لی تھی اور باقی فاصلہ صرف09کلو میٹر کا رہ گیا تھا، لیکن وہاں سے اسے عین بارڈر تک پسپا کر دیا گیا تھا۔

واپسی سفر کے دوران مَیں میرا ساتھی اور روٹیرین پال جانسن سابق ڈسٹرکٹ گورنروں اور ان کے ساتھی روٹیرین قدوائی کے ساتھ مل کر پی ڈی جی محسن کی آرام دہ گاڑی پر میرپور خاص پہنچے۔ یہ سفر ہم نے عمر کوٹ سے براستہ کنری میرپور خاص جانے کی بجائے عمر کوٹ سے براہ راست میرپور خاص جانے والی سڑک کے راستے کیا۔ میرپور خاص میں وہاں کی روٹری کلب کی میٹنگ اسی رات کو ہوئی تھی اور ہمیں اس میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہونی تھی۔ ویسے بھی ہر روٹری کے ممبر کو حق ہوتا ہے کہ وہ روٹری کے نشان والی پن اپنے کالر پر لگا کر دنیا بھر کی کسی بھی دیگر روٹری کلب کی میٹنگ میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہم رات میرپور خاص میں رہے۔ وہاں کی میٹنگ میں بھی ہندو اور مسلمان مرد اور عورتیں شریک تھے، لیکن ناموں کے سوا کسی بھی دیگر علامت سے پتہ نہ لگتا تھا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ کنری کی روٹری کلب کی طرح یہاں کی روٹری کلب کی میٹنگ بھی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی تھی اور اس میں بھی تلاوت کے بعد سب حاضرین نے کھڑے ہو کرقومی ترانہ گایا تھا۔ کھانا یہاں بھی مشترکہ میزوں پر رکھ کر کھلایا گیا تھا اور اس میں گوشت کی فراوانی تھی۔ میر پور کے روٹیرین ہم سے میٹنگ کی رجسٹریشن فیس لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے بطور مروت چھوڑ دی۔ تھرپارکر اور میر پور خاص کا ایک فرق یہ نظر آیا کہ تھرپارکر میں لوگ ابھی باجرہ کاشت کر رہے تھے جبکہ میر پور خاص میں اس کی فصل کے ساتھ خوشے بھی لگ چکے تھے۔

ہماری جتنے روٹیرین حضرات سے ملاقات ہوئی انہیں ہم نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا، لیکن ایسے لگا کہ ان سے عمر بھر کی شناسائی ہے۔ یہ خیرسگالی، دوستی اور محبت روٹری کے ان مشترکہ مقاصد کی وجہ سے ہوئی کہ آپس میں میل جول بڑھا کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انسانیت کی خدمت کی جائے۔ نیز کوئی بھی بات سوچنے کہنے یا کرنے سے پہلے اسے ان معیاروں پر پرکھ لیا جائے۔

(1) کیا یہ سچ ہے؟

(2) کیا اس سے خیر سگالی اور دوستیاں پیدا ہوں گی؟

(3) کیا یہ سب متعلقین کے لئے فائدہ مند ہو گی؟

روٹری کو ہر سال کے لئے اپنے مرکز سے ایک نیا لائحہ عمل دیا جاتا ہے پچھلے سال کا سبق تھا ”محبت کے بیج بووو“ اور سال رواں کا سبق ہے ” ہاتھ میں ہاتھ دو“(2003ءاور2004ئ)

مَیں نے تھرپارکر میں بوئے گئے محبت کے بیجوں کا خیال کیا تو ان کی آبپاشی کے لئے میری آنکھوں میں سے دو دو آنسو ٹپک پڑے ایک ایک آنسو اس غم کا تھا کہ اگر700مزید ٹینک بھی بن گئے تو یہ اونٹ کے مُنہ میں زیرہ ڈالنے ہی کی بات ہو گی۔ باقی ایک ایک آنسو اس خوشی کا تھا کہ جتنے بھی ٹینک بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں وہ بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر مزید قطرے متواتر گرتے رہے تو تمام تھرپارکر کا جل تھل ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ پھر مجھے ہاتھ میں ہاتھ دو والا سبق یاد آیا تو مَیں نے حسب توفیق دو سٹوریج ٹینک بنوانے کے لئے چھ ہزار روپے کا چیک کاٹ دیا اور اس طرح سو سال کے لئے پینے کے پانی کی دو سبیلیں لگوانے کا انتظام کر دیا اگر ان چار آنسوﺅں اور دو سبیلوں کے طفیل کوثر و تسنیم مل جائیں تو یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ شاید اسی خیال سے روٹیرین شہزادہ کبیر احمد نے بھی روٹری کلب لاہور شرقی کی طرف سے ایک ٹینک بنوانے کا وعدہ کر دیا تھا۔آخر میں صرف دو باتیں عرض کرنی ہیں۔ پہلی یہ کہ اگر اس شبنم افشانی کے بعد موسلادھار بارش ہو گئی تو فبہا ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ ع

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

دوسری یہ کہ جس وادی پر خار میں کانٹوں کی سوکھی زبان بھی کسی آبلہ پا کے چھالوں سے پیاس بجھانے کے لئے بے قرار ہو اور گل بھی اگر ہو تو بے طروات ِ شبنم ہوں، وہاں شبنم افشانی بھی نعمت غیر مترقبہ ہے اور شدت سے درکار ہے۔ ع

ہائے کیا تشنگی کا موسم ہے

گل بھی بے طراوتِ شبنم

مزید :

کالم -