جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 10
میاں اظہر مسلم لیگ میں پھوٹ ڈالنے کی پرویزی آمریت کی خواہش کو حقیقت میں تبدیل کر نے کے لئے اپنے گھر پر بدستور اجلاسوں میں مصروف تھے۔ وہ مختلف لوگوں سے ملاقات میں اپنے آپ کو آئندہ کے وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے تھے۔ انہوں نے مارچ کے آخر میں اپنے گھر پر عید ملن پارٹی کا انعقاد کیا۔ یہ صرف نام کی ہی عید ملن پارٹی تھی درحقیقت یہ ایسے لوگوں کا اکٹھ ثابت ہوئی جنہوں نے میاں صاحب کا نام لئے بغیر ان پر الزامات کی بارش کردی اور اپنا سارا زور خطابت اس امر پر صرف کردیا کہ فوجی اقتدار کو بسروچشم قبول کرلیا جائے۔ بعدمیں اعجاز الحق نے میاں اظہر کو فون کرکے عید ملن پارٹی کی ’’کامیابی‘‘ پر مبارکباد بھی دی۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 09 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اپریل کا مہینہ اس حوالے سے یادگار ہے کہ اس میں طیارہ کیس کا فیصلہ سنایا گیا اور گوہر ایوب نے پی پی پی سے جمہوریت کی بحالی کے لئے رابطہ بھی کرلیا تھا۔ میں نے راولپنڈی بار کونسل سے خطاب بھی کیا اور اپنی جمہوری آواز ان تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ 13 اپریل کو مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں نواز شریف صاحب کو سزا دلانے کی آمرانہ کوششوں کے اثرات و مضمرات کا جائزہ لیا گیا۔ 27 ارکان نے اس اجلاس میں شرکت کی مگر پریس بریفنگ کے وقت کچھ ارکان چلے گئے تھے اور ان کے جانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ میاں صاحب کو سزا ہونے کی صورت میں اپنا اقتدار بنتا دیکھ رہے تھے۔ چودھری شجاعت ان دنوں ملک سے باہر تھے۔ طیارہ کیس کے فیصلے سے ایک روز قبل وہ ملک واپس آئے اور انہوں نے آتے ہی پریس کانفرنس کردی جس میں جب ان سے مشرف کے ساتھ شریک اقتدار اور سزا کی صورت میں نواز شریف کی قیادت کے مستقبل کا سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ ’’فیصلہ کچھ بھی ہو مسلم لیگ کی قیادت تبدیل نہیں ہوگی، موجودہ حکومت میں شمولیت سیاسی موت ہوگی‘‘ مگر افسوس کہ وہ اپنے الفاظ پر قائم نہ رہ سکے۔
6 اپریل کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کردیا گیا جبکہ دیگر چھ افراد کو بری کردیا گیا۔ میرا اس فیصلے کے حوالے سے صرف ایک سوال ہے کہ جب دیگر افراد پر کوئی خلاف قانون عمل ثابت نہیں ہوا تھا تو بھلا اسلام آباد میں فوجیوں کے نرغے میں گھرے وزیراعظم کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ فضا میں طیارہ ہائی جیک کرلیں۔ کیا نواز شریف صاحب طیارے میں پستول لے کر داخل ہوئے تھے؟ اگر ایسابھی نہیں تھا تو پھر ان پر کیا ثابت ہوا؟ ہاں صرف یہ ثابت ہوا کہ جو شخص ایک پی سی او کے ذریعہ چیف جسٹس تک کو نکال سکتا ہے وہ عدالتی نظام کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔
اس فیصلے پر بہت سارے افراد کے جو کہ موقع کی تلاش میں تھے، دلوں میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے اور انہوں نے فوراً ہی بیانات دینے شروع کردئیے۔ 9 اپریل کو مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ، پارلیمانی پارٹی اور دیگر حلیف جماعتوں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں چودھری شجاعت، میاں اظہر، اعجاز الحق، خورشید قصوری، عابدہ حسین اور فخر امام نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں نواز شریف صاحب کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ میاں اظہر اور خورشید قصوری وغیرہ نے تقاریر نہ کیں مگر کوئی اختلاف رائے کا بھی اظہار نہ کیا۔ اجلاس کے بعد راجہ ظفر الحق صاحب نے پریس بریفنگ میں نواز شریف صاحب کی قیادت پر اعتماد کے حوالے سے شرکاء کے فیصلے سے صحافیوں کو آگاہ کیا۔
میاں صاحب کے بارے طیارہ کیس کے فیصلہ میں چیدہ چیدہ واقعات کا اختصار سے ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ 12 اکتوبر سے لے کر اس وقت تک کیا حالات پیش آتے رہے۔ اگر واقعات کو اسی طرح بیان کرتی چلی جاؤں تو پھر ایک علیحدہ کتاب ترتیب پاجائے گی۔ چنانچہ اب آپ کو میں مسلم لیگ میں پھوٹ ڈالنے کی کوششوں کی آخری دنوں کی اجمالاً واقعاتی جھلک دکھاتی ہوں کیونکہ گزشتہ بیان کئے گئے واقعات سے اکثر چہرے آپ کے سامنے آچکے ہوں گے کہ کون کیا کررہا تھا اور اس کے کیا ارادے تھے؟
6 اکتوبر 2000ء کو یہ فیصلہ ہوا کہ 12 اکتوبر کے سیاہ دن کو یوم سیاہ کی حیثیت سے منایا جائے اور یہ کہ 11 اکتوبر کو پشاور سے مسلم لیگ ایک پرامن ریلی نکالے گی جس کی منزل لاہور ہوگی۔ اس پروگرام کے اعلان کے اگلے روز میں جیل میں میاں صاحب سے ملی اور ان کو جماعت کے فیصلوں سے آگاہ کیا تاکہ جماعت کے لئے مزید رہنمائی حاصل کی جاسکے۔ میاں صاحب نے ہدایت کی کہ پارٹی کو مزید متحرک کرنے اور یوم سیاہ کو کامیاب بنانے کے لئے میں خود اور دیگر پارٹی عہدیدار بھی عوام سے اپنے رابطوں کو مزید فعال بنائیں۔ اس کے ساتھ میاں صاحب نے ایک عجیب فقرہ کہا کہ ’’جو لیگی دباؤ میں ہیں ان کو آزمائش میں نہ ڈالا جائے‘‘ ان کی یہ بات دراصل ان کی اس سوچ کی غمازی کرتی تھی کہ وہ کسی ابن الوقت سے جمہوریت کے لئے کو ئی امید نہیں رکھتے۔ ان کا مجھے یہ کہنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ میں یوم سیاہ کے موقع پر صرف عوامی ردعمل پر توجہ مرکوز رکھوں اور خوفزدہ یا موقع پرست سیاستدانوں کے تجاہل کو خاطر میں نہ لاؤں۔ چنانچہ اگلے دن ہی میں نے لاہور، اوکاڑہ، ساہیوال اور قصور میں کارکنوں کے مختلف اجتماعات سے خطاب کیا اور ان تک ان کے لیڈر کا پیغام بھی پہنچایا۔ یہ وہی دن تھا جس دن چوہدری شجاعت نے سیاست دانوں اور فوج کی مشترکہ حکومت بنانے کی بات کی تھی۔ اس وقت تک وہ کھل کر قیادت کے خلاف سامنے آچکے تھے۔ ہاں کبھی کبھی اپنی خفت کو مٹانے کی غرض سے کوئی ادھر اُدھر کی بات بھی کردیتے تھے۔
10 اکتوبر کو ہی راولپنڈی میں لیگی کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں اور جبر و تشدد کا ایک نیا سلسلہ سامنے آگیا۔ اس دن لاہور ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام جمہوری کنونشن بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں میرے علاوہ نوابزادہ مرحوم اور چند دیگر افراد نے بھی خطاب کیا تھا۔ اس کنونشن کے دوران میرے علم میں لایا گیا کہ حکومت لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے سخت احکامات جاری کرچکی ہے جس کے نتیجے میں متعدد لیگی کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ میری گرفتاری بھی متوقع تھی۔ میں نے پھر بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو میں ہر حالت میں ریلی میں شرکت کے لئے جاؤں گی۔ چنانچہ میں پشاور کے لئے روانہ ہوگئی۔ وہاں پر میٹ دی پریس پروگرام کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ریلی کو بزور طاقت روک دیا گیا ہے اور کارکنوں پر زبردست تشدد کیا جارہاہے لہٰذا میرا جانا وہاں پر مناسب نہیں ہوگا مگر میرا ایک ہی جواب تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں جان کی بازی لگا کر بھی ریلی میں شرکت ضرور کروں گی۔ میں ریاسی اداروں سے اپنے آپ کو اوجھل رکھتے ہوئے نجمہ حمید کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تاکہ ان کی ہمراہی میں ریلی میں جاسکوں مگر بدقسمتی سے اسی اثناء میں میری وہاں موجودگی کا علم حکمرانوں کو ہوگیا اور مجھے وہاں پر ہی غیر اعلانیہ نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال پھر بھی بہت سے شہروں میں یوم سیاہ کے حوالے سے کامیاب اجتماعات منعقد ہوئے ۔ ہماری مرکزی ریلی کو نہ نکلنے دیا گیا۔ مجھے اگلے دن رہا کردیا گیا۔(جاری ہے)