ویٹو پاور کا نا جائز، غیر منصفانہ استعمال
گزشتہ14ماہ سے غزہ میں فلسطینی عوام پر اسرائیلی حکومت، اپنی ممکنہ عسکری طاقت اور جدید اسلحہ کے استعمال سے بربریت پر مبنی انسانی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے، جبکہ اہل فلسطین کا قصور یہ ہے کہ وہ گزشتہ پون صدی سے اس خطہ ارض میں امن و چین سے زندگی گزارنے کے لئے بلا کسی دباؤ، خوف اور رکاوٹ ایسے حقوق آزادی کا حصول طلب کر رہے ہیں۔ جن کا ذکر بین الاقوامی قوانین میں دیا گیا ہے، جن میں سب انسانوں کو کسی رنگ، نسل، مذہب اور خطہ ارض کی تفریق اور تعصب کے بغیر، برابری کا درجہ حاصل ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے حماس تنظیم کی جانب سے اس مقصد کے لئے عملی جدوجہد اسرائیل کے خلاف کسی جارحانہ جذبہ اور ارادہ کی بجائے محض وہاں کے لوگوں کے حقوق آزادی اور انسانی حقوق کی محرومی سے نجات حاصل کرنے کے لئے کی جا رہی ہے، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو انہیں شب و روز جدید اسلحہ کی بمباری سے تہہ و تیغ اور تباہ و برباد کرنے کی روش پر چل رہا ہے۔
حالانکہ اہل فلسطین کو دو ریاستی منصوبہ کے تحت آزادی کا حق دینے کے بارے میں امریکہ کے کئی سابق صدور مختلف سالوں سے واضح الفاظ میں وعدے کرتے رہے ہیں۔ قارئین کرام جانتے ہوں گے کہ ایک سابق صدر جارج بش کی سال 2005ء میں اہل فلسطین کیلئے تجویز کے مطابق غزہ میں ہی آزادی کی سہولتیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ وعدہ بھی بعد ازاں،بلکہ آج تک کسی جانب سے بھی وفا نہیں کیا گیا،بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم اس مطالبہ پر سیخ پا ہو کر فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تا حال 44,500 سے زائد بے قصور نہتے فلسطینی لوگوں کو بے رحمی سے شہید اور ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ان مظلوم افراد میں بیشتر مرد و خواتین اور بچے بھی ہیں، جن کی اذیت ناک تصاویر اورخبریں ٹی وی چینلز پر تسلسل سے دیکھنے میں آ رہی ہیں۔امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن اس سنگین ظلم و سفاکیت پر جنگ روکنے کی بجائے اسرائیل حکومت کو برابر جدید اسلحہ، جنگی جہاز اور خطیر مالی امداد دے کر اہل فلسطین کا نام و نشان مٹانے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران قطر، مصر، سعودی عرب، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے حکمران بھی جنگ بندی کرانے کی ممکنہ سعی کر رہے ہیں،لیکن تاحال امریکہ بہادر اور اسرائیل کے حکمران کسی جنگ بندی پر توجہ دینے کی بجائے اہل فلسطین کی دن رات نسل کشی اور تباہی کے لئے بلا توقف بہت خطرناک اور خوفناک حملے کر رہے ہیں۔ تادم تحریر ظلم و تشدد کا تسلسل نہایت بے حسی، نا انصافی اور مذموم عزائم سے جاری ہے۔
اس 14 ماہ کے عرصہ میں دنیا بھر کے بڑے شہروں اور دیگر علاقوں میں اکثر لوگوں نے اس بربریت کو روک کر اہل فلسطین کو جلد آزادی دینے کے بڑے مظاہرے بار بار کئے ہیں اور ابھی تک بیشتر لوگ جو مہذب شائستہ اور انسانی اقدار کے تحفظ کے علمبردار ہیں وہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے حامی دیگر ممالک کے حکمرانوں کی معاملہ ہذا پر زوردار اور واضح الفاظ و انداز میں مذمت کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان مظاہروں اور دیگر غیر جانبدار اداروں اور رہنماؤں کی اپیلوں پر تاحال کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔اس امر پر صدر جوبائیڈن کی حکومت نے چار بار ویٹو کا حق استعمال کر کے اہل فلسطین کی نسل کشی اور تباہی و بربادی میں بہت غیر منصفانہ کردار ادا کیا۔ آج ترکیہ کے صدر طیب اردگان نے بھی ویٹو پاور کو مظلوم لوگوں کے جائز حقوق کی جدوجہد کے خلاف بہت غلط اقدام قرار دیا ہے،جو صرف ایک ملک امریکہ استعمال کر کے دیگر کئی ممالک کے جائز مطالبات کو مسترد کر رہا ہے۔ دنیا پھر کے کئی دیگر اہم رہنما بھی آئے روز اس استحقاق کو جلد ختم کرنے کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ شدید مظالم کی بنا پریہ مطالبہ تسلیم کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ اسرائیلی دہشت گردی سے لاکھوں فلسطینی عوام کے مکانات، تجارتی سماجی مراکز، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں مساجد اور مختلف پبلک اداروں کے دفاتر پر اندھا دھند اور بے تحاشا بمباری اور مزائلوں کے اہداف بنا کر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
مزید برآں ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کو بھی اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا۔ اب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی حماس کو اسرائیلی یرغمالی افراد فوری رہا کرنے کی سخت دھمکی دی ہے جبکہ وہاں اسرائیلی جارحیت ابھی تک شدت سے جاری ہے۔ وہ اپنا دورِ اقتدار 20 جنوری 2025ء کو حلف اُٹھا کر شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے موجودہ تمام اداروں کے رہنماؤں سے گزارش ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کرا کے عمل درآمد کرایا جائے۔ نیز ویٹو پاور سلامتی کونسل کے کسی ایک مستقل رکن کے غیر محدود اختیار کو بھی جلد ختم کیا جائے جو بیشتر بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک سال کے دوران امریکی وزر خارجہ مختصر وقفوں سے چند بڑے با اثر عرب ممالک کے چکر لگاتے رہے ہیں، لیکن اسرائیل کے یرغمالی افراد کی رہائی کی شرط مسلط کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس پیشگی شرط کی وجہ سے تا حال جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ یہ شرط غیر منصفانہ اور نا مناسب ہے۔