ان کے نام جن کا کوئی عالمی دن نہیں ہوتا
تحریر : شاہد ندیم
آج کی تحریر ان دیہاڑی داروں کے نام
جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں
کہ میرا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے۔۔
آج کی تحریر ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کے لیے گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں تم لوگ کھاؤمیں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں۔
آج کی تحریر ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلائٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں، جنہیں اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔۔
آج کی تحریر ان سب مزدوروں، سپروائزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لیے رات کو کال کرنا نہیں بھولتے۔
آج کی تحریر ان سب دکانداروں اور سیلزمینز کے نام
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں
باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے۔۔
آج کی تحریر ان سب عظیم مردوں کے نام
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈرائیو شروع کرتے ہیں اور پورے ملک میں اشیائے تجارت دے کر آتے ہوئے اپنی بیٹی کے لیے کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
آج کی تحریر ان معزز افسران کے نام
جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے، مگر اپنے بچوں کے رزق کے لیے سینئر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں۔
آج کی تحریر ان عظیم کسانوں کے نام
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لئے پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں۔
آج کی تحریرمیرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی۔۔
آج کی تحریر ہر نیک نفس، ایماندار اور محبت کرنے والے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لیے نہیں اپنے گھر والوں کے لیے کماتے ہیں
جنکا کوئی عالمی دن نہیں ہوتا۔
مگر ہر دن ان کے لیے عالمی دن ہوتا ہے
کیونکہ
جن کے لیے وہ محنت کرتے ہیں وہی انکا سب کچھ ہوتے ہیں۔