عمران خان کا مستقبل! 

  عمران خان کا مستقبل! 
  عمران خان کا مستقبل! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کیا عمران خان دوبارہ وزیر اعظم پاکستان بنیں گے؟ یا جنرل ضیاالحق، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسا کوئی مستقبل ان کا انتظار کر رہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ان سوالات کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ملک انتہائی مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ بے یقینی معیشت کے لئے تباہ کن ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جہاں اس کی معیشت کو عالمی اداروں سے دباؤ کا سامنا ہے وہاں سیاسی صورت حال اسے مزید گھمبیربنا رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو تو اس کا احساس ہے مگر پاکستانی سیاستدانوں کو معیشت سے زیادہ اپنی سیاسی بقاء کی فکر ہے ان کے غیرذمہ دارانہ بیانات جہاں پاکستانی عوام کو تقسیم کر رہے ہیں، معاشرے میں نفرت میں اضافہ کر رہے ہیں وہاں عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاستدانوں کی ”ابھی یا کبھی نہیں“ کی پالیسی کو آپ ان کی عمر کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف، شہبازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان جیسے اہم لیڈرستر سال کی عمر سے تجاوز کر چکے ہیں اور اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر انہیں اس وقت چانس نہیں ملتا تو کبھی نہیں ملے گا۔ تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ 60 سال کی عمر کے بعد انسان کے اندر خطرے کی جو گھنٹیاں بجنی شروع ہوتی ہیں، ستر سال کی عمر میں وہ باقاعدہ شور مچانا شروع کر دیتی ہیں اور ایک دوسرا اہم ترین فیکٹر بھی ہے جو سیاستدانوں کی بے چینی اور فکر میں اضافہ کر رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے سیاست کو سیاست نہیں رہنے دیا۔ اسے ذاتی دشمنی بنا دیا ہے۔ سیاست اب ایک ایسے میدان جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں سپاہی کو پتہ ہے کہ اگر اس نے سامنے والے سپاہی کو گولی نہ ماری تو وہ اسے گولی مار دے گا۔ پاکستانی سیاستدانوں نے صدر رچرڈ نکسن کی اس نصیحت پر کبھی توجہ نہیں دی جو انہوں نے وہائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتے وقت اپنی تقریر میں کی تھی۔ رچرڈ نکسن بڑی بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے مگر پھر ان کی اقتدار کو مضبوط کرنے اور دوسروں کو کنٹرول کرنے کی خواہش نے واٹرگیٹ سکینڈل کو جنم دیا اور اس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے تجربے کو زبان دیتے ہوئے کہا تھا کہ زندگی میں لوگ آپ کے مخالف ہوتے ہیں مگر آپ کی تباہی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ دوسروں کے خلاف ہوتے ہیں۔


سیاستدان اپنے آپ کو اقتدار میں دیکھنے کے لئے جتنے بے چین ہیں اس سے زیادہ وہ اپنے مخالفوں کو جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ رویہ پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کے لئے موت کا پیغام لا سکتا ہے۔ امریکی صدر روزویلٹ نے ایک دانش کی بات کی تھی کہ اگر جمہوریت عوام کی خدمت کرنے میں ناکام ہو گی تو عوام دوسرے آپشنز پر غور کریں گے۔
پاکستانی جمہوریت کا عدم استحکام معاشی مسائل پیدا کر رہا ہے اور اب یہ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ لوگ باقاعدہ بلبلا رہے ہیں۔ غصہ، نفرت اور بے یقینی کے عفریت پورے معاشرے پر منڈلا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ بہت سے سیاستدانوں کو اس میں اپنے اقتدار کی کرنیں دکھائی دیں مگر یہ صورتحال ملکی سالمیت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔


عمران خان کو اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی، اسے دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں جن کو 5 جولائی 1977ء کو اقتدار سے معزول کر کے اپوزیشن کے لیڈروں کی طرح نظربند کر دیا گیا تھا، نظربندی کے بعد جب انہیں رہا کیا گیا تو لاہور میں ان کا غیرمعمولی استقبال ہوا بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر بہت کچھ کرنے کی باتیں کیں، ان میں بہت سے لوگوں کو خطرہ نظر آیا۔ ایک مغربی مصنف کی کتاب کے مطابق ضیاالحق کو بتایا گیا کہ قبر ایک ہے اور آدمی دو ہیں۔ بھٹو یا آپ میں سے کسی ایک کو قبر میں جانا ہے اور یہ خوف بھٹو کی پھانسی کا سبب بن گیا۔ عمران خان کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ وہ بیک گراؤنڈ میں جا رہے ہیں اور شاید انہیں سیاسی طور پر ختم کرنا ممکن ہے اس لئے ان کے خلاف کسی انتہائی اقدام کی توقع نہیں ہے، مگر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دے دیا جائے گا اور مختلف مقدامات میں انہیں جیل یاترا بھی کرائی جا سکتی ہے ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے تاہم اس میں شبہ نہیں ہے کہ ان کو ایک مشکل دور کا سامنا ہے، وہ لوگ جو انہیں اقتدار میں لائے تھے اب ان کے ساتھ نہیں ہیں امریکہ کو انہوں نے ناراض کر لیا ہے۔ مگر اس سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ برصغیر میں سیاسی رہنما عام طور پر تحریک چلانے کے لئے ستمبر اکتوبر کا انتخاب کرتے رہے ہیں کیونکہ گرم موسم میں عوام کا کثیر تعداد میں نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ لانگ مارچ کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ موسم گرما کی شدت بھی تھی۔


عمران خان اگر غیر ضروری دشمن بنانے سے گریز کرتے ہیں اور متعلقہ فریقین کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور کرکٹ کے کھیل کو قوانین کے مطابق کھیلیں گے اور اسے فٹ بال نہیں بنائیں گے اور وہ اپنی سکیورٹی کے لئے رسک نہیں لیتے تو موسم سرما میں ان کو سیاست کرنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر وہ اس مقبولیت کو برقرار رکھنے اور بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اقتدار سے متعلقہ فریقین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں او رانہیں انتحابات میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا ہے تو ان کی کامیابی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ خاصا مشکل کام ہو گا کیونکہ ان کے دوست نما دشمن انہیں محاذ آرائی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی عوامی مقبولیت میں تو اضافہ ہو سکتا ہے مگر اس سے وہ وزیراعظم کی کرسی سے دور ہو جائیں گے۔
عمران خان کو اپنی سیاست کے انداز میں بڑی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ اداروں کو مخالف بنانے کی روش ترک کرنا پڑے گی، ذمہ دار قومی لیڈر کا امیج بنانا پڑے گا اور انہیں اس زعم سے بھی نکلنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا انہیں دوبارہ اقتدار میں لا سکتا ہے انہیں اقتدار تک پہنچانے میں سوشل میڈیا کے کردار سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا مگر اب وہ اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں، اب ان کے اور ان کی اہلیہ کے مالی سکینڈل سامنے لائے جا رہے ہیں  ان کے خلاف پراپیگنڈے کے طوفان اٹھائے جا رہے ہیں، یوں ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے عمران خان کے مستقبل کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس شاہراہ پر چلتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ صرف اور صرف عوامی مقبولیت کسی کو اقتدار نہیں دے سکتی مگر تاریخ بدل بھی جاتی ہے اور مستقبل کی تاریخ ماضی کی تاریخ سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -