بات تو یقین کی ہے

    بات تو یقین کی ہے
    بات تو یقین کی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 نبی آخر الزماں پیارے کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ”میرا امتی ہر گناہ کر سکتا ہے۔دو نہیں کرے گا۔ ایک جھوٹ نہیں بولے گا۔دوسرا دھوکہ نہیں دے گا“۔خیر سے ہمارا ہر کام جھوٹ سے شروع ہو کر دھوکے پر ختم ہوتا ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمارے کرتوت ویسے کے ویسے ہیں۔ہمیشہ کی طرح سارے سال کا گھٹیا ترین مال دکان داروں نے اسی ماہ ہی بیچنا ہوتا ہے۔

خدا کی پناہ!کمائی کے واحد مہینہ میں سبزی، پھلوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔100 روپے والی شے 400 روپے میں فروخت کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔

روز مرہ کے استعمال والی برائلر مرغی کا نرخ مختلف جگہ پر 700 سے 800 روپے تک ہے۔رونا صرف گراں فروشی کا ہی نہیں۔

بدنیتی اور منافقت کی انتہاء!

سارا دن منافع خوری کے بعد پہلی صف میں نماز کے لئے کھڑا ہونا، لوگوں کا حق مار کر 27 رمضان المبارک کی شب عمرہ کے لئے پہنچنا تو کوئی ہم سے سیکھے اور تو اور ابھی کل اپنے مسلمان بھائی کی گھٹیا حرکت پر میرا سر شرم سے جھک گیا۔جب کار واش کرانے کے لئے پیٹرول پمپ پر موجود واشنگ ایریا میں پہنچا، کیونکہ گاڑی میں دودھ گر گیا تھا۔ دودھ کی بدبو سے کار میں بیٹھنا محال تھا۔وہاں موجود واشرمین نے کہا۔اس بدبو کو کیمیکل سے دور کیا جائے گا۔500 روپے ایکسٹرا لگیں گے۔میں نے کہا ماہ مقدس میں ہاتھ ہولا رکھو۔وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔کار واش ہو کر باہر آئے۔وہاں موجود دوسرے واشرمین نے کہا۔کیمیکل کا کوئی چکر نہیں ہے۔یہ فراڈ کر رہا ہے۔میں عیسائی ہوں۔مجھے مرنا یاد ہے۔اسے یاد نہیں۔

خاکسار اس مسیح کی بات سُن کر زندہ درگور ہو گیا۔

اس نے ہم مسلمانوں کے منہ پر سیدھا تھپڑ رسید کیا تھا۔ ہم کریں بھی تو کیا؟

حرام خوری ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو چکی ہے۔

اپنے ہاں ہر کام کے لئے چائے، پانی بنا کشتی پار لگ ہی نہیں سکتی۔یہاں مجھے اینکر پرسن،سینئر کالم نگار برادرم رؤف کلاسرہ کی ایک سنہری بات یاد آ گئی۔ان کے بقول روز محشر پُل صراط پر شاید ڈالروں کے بھرے بیگ دکھانے سے ہی خلاصی ہو گی۔اللہ معاف فرمائے۔

ہم اس فانی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔

معلوم نہیں؟اس مختصر سی زندگی میں لوگوں کی زندگی اجیرن کرنا ہمارا مشن کیوں بن چکا ہے؟میرا یہ ماننا ہے۔مخلوق کی خدمت قبول اور مقبول عبادت ہے۔کوئی ایسا کر کے تو دیکھے۔

 یہ اللہ کا نظام ہے،جس نے اپنے والدین اور مخلوق کی خدمت کی۔اس کی آخری وقت میں خدمت ہو کر رہے گی۔

میرا اس بات پر بھی کامل یقین ہے۔ ہمیں زندگی میں کوء ایسا پودا لگانا چاہئے، جس کی روشنی ہماری قبر کو تاقیامت روشن رکھے۔یہ بالکل ممکن ہے۔اگر ہم صدقہ جاریہ کا سلسلہ شروع کر جائیں۔کسی ہسپتال میں مشین عطیہ کر دیں۔مریضوں کے لئے ادویات، آپریشن کا سامان دے کر اللہ کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیں۔

بتانے والے بتاتے ہیں۔اللہ دو بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔پہلا وہ بندہ جس کا دِل دکھی ہو۔دوسرا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا۔میں نے اپنے ایک جاننے والے بزنس مین کو اللہ کی قربت حاصل کرنے کا نسخہ کیمیاء  بتایا۔

میں نے ان سے عرض کیا۔

دینا اللہ پاک کی صفت ہے۔آپ رمضان میں اپنے ملازمین کو ایک تنخواہ بطور بونس دے دیا کریں۔اس کے چار فوائد ہوں گے؟٭…… اللہ پاک آپ کو 700 گنا دے گا، اب اللہ کے 700 گنا کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے؟٭……آپ کے کاروبار میں برکت ہو گی، نقصان نہیں ہو گا۔٭……آپ سے بیماری کوسوں دور بھاگے گی۔ ٭……جب آپ کا ملازم سحر و افطار کرے گا، اس کے دِل سے آپ کے لئے دُعا نکلے گی۔وہ دُعا جو انسان کی تقدیر بدلتی ہے۔

میری بات سن کر اس بزنس مین نے کہا۔

بات آپ کی درست ہے، مگر بات تو یقین کی ہے۔

ان بزنس مین کو فوت ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن ان سے کی گئی گفتگو ابھی تک میرے ذہن میں اس خواہش کے ساتھ ساتھ گھوم رہی ہے۔کاش!ہم اپنی اَنا کی تسکین کے لئے لوگوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بجائے آسانیاں پیدا کرنے والے بن جائیں۔ہمیں اس بات کا پکا یقین آ جائے جو اللہ کے آخری رسول سرورِ کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:

”(خیر الناس من ینفع الناس)بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو“

اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -