خونی اور غیر خونی رشتے
میں اپنی اور آپ کی آسانی کے لئے تمام انسانی رشتوں کو خونی اور غیر خونی حصوں میں بانٹ رہا ہوں ورنہ وسیع تر معنوں میں تو سب بنی نوع انسان کی رگوں میں ایک جیسا ہی خون دوڑتا ہے۔ اس کا رنگ گو سرخ ہوتا ہے لیکن کبھی سگے قریبی رشتوں کا خون سفید ہو جاتا ہے۔ تاہم کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ دور کے رشتے جنہیں آپ تقریباً غیر خونی قرار دے سکتے ہیں وہ آپ سے اتنے جڑ جاتے ہیں کہ انتہائی قریبی سگے رشتوں پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔
بنیادی خونی رشتہ تو آپ کا بہن بھائیوں اور ماں باپ سے ہوتا ہے ایک حد تک Grand Parents کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ خونی رشتوں کے دوسرے سلسلے بنتے ہیں۔ میاں بیوی کا غیر خونی رشتہ خود سے بنایا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو قریب ترین خونی رشتہ بہن بھائی کا اور بیٹے بیٹیوں کا اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے (لیکن ماں اور باپ کا آپس میں رشتہ اس کیٹگری میں نہیں آتا) بیالوجی کے اعتبار سے ان کا خون یکساں ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اپنا خون جوش مارتا ہے جو قدرتی طور پر اتنا جوش مارے گا جتنا وہ قریب کا ہوگا۔ میں نے سوچا اور آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ان قریبی خونی رشتوں میں کبھی اتنی مخالفت یا نفرت کیوں بڑھ جاتی ہے۔
اس کا جواب بہت پیچیدہ ہے لیکن مختصر طور پر یہ سمجھ لیں کہ انسانی تعلقات میں قربت یا فاصلہ پیدا کرنے میں دوسرے Factors بھی کار فرما ہیں۔ خون کا جوش اپنی جگہ موجود ہوتا ہے لیکن معروضی حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ خونی تعلق پس پردہ چلا جاتا ہے۔
رشتوں کے کھیل کے اس بیان سے میرا مقصد اس مقام تک لانا تھا جو میری اس تحریر کا مرکزی نکتہ ہے۔ یہ غیر خونی رشتوں کا معاملہ ہے جن میں منہ بولے رشتے بھی شامل ہیں۔ میں محقق بن کر کوئی تحقیق آپ کے سامنے پیش کرنے نہیں جا رہا۔ ہاں رشتوں کے معاملات پر ایک عرصے سے غور کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں میرے کچھ تجربات بھی ہیں جو آپ سے شیئر کروں گا۔ خونی رشتوں کے علاوہ منہ بولے رشتوں سمیت تمام غیر خونی رشتوں کے بارے میں میری ایک رائے ہے۔ یہ رشتے کیسے بنتے ہیں؟ کیسے گہرے ہوتے ہیں؟ اس پر اسرار وادی میں میرا ذہن بھی مٹر گشت کرتا رہا ہے اور کسی نتیجے پر پہنچا ہے وہ ابھی بتاؤں گا۔ اسے میرے خیال کے طور پر دیکھیں کہ اس کی شاید میں آپ کو سائینٹفک توضیح نہ پیش کر سکوں۔
ظاہر بات ہے قریب ترین خونی رشتے بہن بھائیوں اور بیٹے بیٹیوں کے آپس میں اور اپنے ماں اور باپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن ماں اور باپ کا آپس کا رشتہ غیر خونی ہوگا جو کم از کم قریب ترین خونی رشتوں میں شامل نہیں ہوگا، اس کے بعد جیسے جیسے خون کے رشتے دور ہوتے جائیں گے خون میں یکسانی اسی نسبت سے کم ہوتی جاتی ہے۔اسی لئے جب ہم کہتے ہیں کہ اپنوں کے لئے خون جوش مارتا ہے تو اس کا بیالوجیکل سبب تو یہی خون میں یکسانیت یا قربت ہے۔ خونی اور غیر خونی رشتے میں یہی بڑا فرق ہے کم خونی رشتے والے ایک دوسرے سے الگ بھی ہو جائیں تو یہ رشتہ بدل نہیں سکتا۔ بیٹے بیٹیاں، آپس میں یا ماں باپ سے الگ ہو کر تعلق توڑ بھی لیں تو ان کا خونی رشتہ بہر حال قائم رہے گا۔
غیر خونی یا منہ بولے رشتے ان سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ ہر وقت امتحان سے دو چار رہتے ہیں۔ ان میں شگاف پڑا تو ایک دفعہ ختم۔ یہ الگ بات ہے دوبارہ کسی طرف سے کوشش کے نتیجے میں یہ پھر سے بحال ہو جائیں۔ خونی رشتوں کے درمیان گہرے لگاؤ کی بیالوجیکل وجہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ کیا یکساں خون کا جوش ہی انسانوں کے درمیان قریبی لگاؤ کا واحد سبب ہے۔ خون کی خون سے کشش قدرت نے پیدا کی ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ جو بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے چلیں اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
کیا خون کی کشش کے علاوہ بھی کوئی اور انجانی قوت ہے جو آپ کو یک دم کسی کے قریب لے جاتی ہے۔ میں نے بہت لوگوں سے سنا کہ ان کا کسی سے تعلق بغیر کسی ٹھوس سبب کے ہو گیا۔ کچھ لوگ آپ کو ملتے ہی اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ صرف ایک قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان سے خونی رشتوں کی طرح سچے کھرے خلوص بھرے تعلقات بننے میں دیر نہیں لگتی۔
میرے چھوٹے بھائی سیف مرحوم نے تو اس سلسلے میں کمال مثال قائم کی۔ ہم لوگ آرائیں ہیں، اس کا سکول میں دو شیخ لڑکوں سے تعلق بنا جس کے لئے دوستی کا لفظ بہت چھوٹا ہے جو بھائیوں سے کہیں بڑھ کے تھا، پھر اس میں ایک ککے زئی لڑکا اور چوتھا ہمارا ایک کزن صفدر اس گروپ میں شامل ہوا۔ یہ صفدر بعد میں کرنل بنا اور جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں شہید ہو گیا۔ یہ چاروں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ کافی دیر بعد میرے ساتھ ایک اور معاملہ پیش آیا۔ اوکاڑہ میں میری ایک کزن کی چھوٹی سی چھ سات سال کی پوتی تھی جو اس رشتے سے مجھے ”دادو“ کہتی تھی۔ میں گاؤں گیا۔ اپنے ایک کزن کے گھر دوپہر کے کھانے کے لئے موجود تھا۔ یہ بچی وہاں آئی اور بڑے دھڑلے سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھانے لگی کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں یہاں کھانے کی دعوت پر آیا ہوں۔ اس نے کہا آپ میرے ساتھ چلو۔ ہمارے گھر آؤ۔ کھانا ہمارے ساتھ کھانا۔ بڑی عجیب صورت حال پیدا ہو گئی۔ میں نے بچی کو دیکھا وہ اپنی بات پرقائم تھی۔ گھر والوں نے مجھے مشکل میں دیکھ کر بچی کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور میں اس کے ساتھ چلا آیا۔ تب میں نے اس بچی کے لگاؤ پر غور کیا اور میرا بھی اس کے ساتھ اسی طرح خصوصی لگاؤ ہو گیا جو آج تک قائم ہے وہ مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر عزیز ہے۔
خون کے رشتوں میں خون جوش مارتا ہے اور غیر خونی خود سے بنائے گئے منہ بولے رشتوں میں کچھ مقناطیسی لہریں آپ کو قریب لے آتی ہیں۔ یہ مقناطیسی لہریں بھی قدرت کے نظام ہی کا ایک حصہ ہیں۔ یہ لہریں ادھر کا ہی رخ کرتی ہیں جہاں یہ کشش لے جاتی ہے اور اس طرح ایک باہمی سچا کھرا ربط قائم ہو جاتا ہے۔ خونی رشتے یقیناً اہم ہوں گے۔ مجھے ان سے انکار نہیں ہے۔ لیکن میری نظر میں غیر خونی یا منہ بولے رشتے کم اہم نہیں ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بات کروں تو میرے لئے منہ بولے رشتے خونی رشتوں سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوئے ہیں۔