میں ہوں جہاں گرد
مجھے دنیا دیکھنے کا شوق ہے۔ پاکستان کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک میں شوق سیاحت پورا کر چکا ہوں۔ دنیا دیکھنے کے اس شوق کا کریڈٹ میں ہمیشہ مستنصر حسین تارڑ کو دیتا ہوں۔ مگر بہت سے تاریخی او تفریحی مقامات کو دیکھ کر جو مایوسی ہوتی ہے اس کا ذمہ دار بھی تارڑ صاحب کو ہی ٹھہراتا ہوں۔ انہیں پہاڑ، دریا، ندی نالے، درخت اور پھول ہی مختلف نظر نہیں آتے بلکہ ان کی ایسی خوبصورت لڑکیوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جن کے اگلی دنیا میں حصول کے لئے مقدس لوگ پر تشدد نیکیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیرون ملک خوبصورت لڑکیاں بھی دکھائی دیں مگر اکثر جن لڑکیوں سے ملاقات ہوئی ان پر صرف لڑکی ہونے کا الزام ہی لگایا جا سکتا تھا۔ نیویارک کے ٹائمز سکوائر میں ایک خوبصورت لڑکی نے روکا تو خیال آیا کہ ایسی لڑکی ہی تارڑ صاحب کو ملی ہو گی۔ مگر وہ کسی چرچ کی مبلغہ تھی اور ہمیں یہ یقین دلا رہی تھی کہ ہمارے دل میں سکون نہیں ہے اور یہ سکون دل میں یسوع مسیح کے داخلے سے ہو گا۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہمارے دل میں سکون ہے تو اس نے بے یقینی سے دیکھا اور جب ہم نے کہا کہ ہم یسوع مسیح کو جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں۔ ان کا بے پناہ احترام کرتے ہیں اور انہیں دل میں داخل کرنے سے معاملہ گڑبڑ ہو جائے گا کیونکہ ہمارے دل میں بہت سے ایسے لوگ رہتے ہیں جن سے وہ پردہ کرنا پسند فرمائیں گے۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد اس نے ہمیں ناقابل اصلاح قرار دیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں تو وہ لڑکی بھی نہیں ملی جس نے ایک سفر میں سوتے ہوئے جناب عطاالحق قاسمی کے کندھے پر سر رکھ دیا تھا اور انہوں نے لڑکی کو جگا کر بتایا تھا کہ میرا نام عطا الحق قاسمی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نہیں۔
تارڑ صاحب اور قاسمی صاحب کے سفر ناموں سے متاثر ہو کر لوگوں نے سیاحت بھی کی اور سفر نامے بھی لکھے اور ان سفرناموں میں ان لڑکیوں سے ملاقات بھی کرائی جو ان کے سپنوں میں رہتی تھیں۔ ہمارے ایسے ہی ایک دوست نے امریکہ کا سفرنامہ لکھا۔ معقول حد تک مقبول بھی ہوا۔ موصوف ہر قسط میں ایک دو خوبصورت لڑکیوں سے ملتے تھے جو ان پر فریفتہ ہو جاتی تھیں۔ وہ ان ملاقاتوں کو لذت اور احتیاط سے بیان کرتے تھے اور آخر میں انہیں بتاتے تھے کہ میں دین دار مسلمان ہوں اور میں کوئی بھی خلاف شریعت حرکت نہیں کر سکتا۔ مجھے ایک قاری کا وہ خط اکثر یاد آتا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ موصوف کے سفر نامے کو پڑھ کر شبہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ ولی ہیں اور یا انہیں کوئی میڈیکل مسئلہ ہے۔
پاکستان میں مقبول سفرنامے کے لئے لڑکی کا ادبی بلکہ رومانوی استعمال ناگزیر تصور کیا جاتا تھا۔ انٹرنیٹ کی ترقی نے اہل پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ پورنوویب سائٹس دیکھنے والوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ سفر کرنے والوں نے اپنے سفرناموں کی ویڈیوز بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا شروع کر دی ہیں۔ یوں سوشل میڈیا نے سفرناموں کی گنجائش ختم نہیں تو محدود ضرور کر دی ہے۔
فرخ سہیل گوئندی صاحب کالم نگار ہیں۔ تجزیہ نگار ہیں۔ دانشور ہیں۔ ٹاپ کے پبلشر ہیں۔ سیاسی کارکن ہیں۔ سیاسی لیڈر ہیں۔ ادب اور سیاست کے حوالے سے کوئی شخص جو کچھ ہو سکتا ہے وہ ان میں موجود ہے۔ ایسے لوگوں کو ادارے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ مگر فرخ سہیل گوئندی کو پاکستان میں ادب و سیاست میں وہ مقام نہیں ملا جس کی ان کے متعلق امید لگائی جا سکتی ہے۔ ایک مغربی خاتون مصنف نے متعدد بڑے لوگوں کی بائیوگرافی لکھی تھی۔ اس سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کو ان میں سے ذاتی طور پر کس نے متاثر کیا۔ خاتون مصنفہ نے برجستہ جواب دیا۔ ”کسی نے بھی نہیں۔ انہوں نے بڑے کام کئے تھے مگر ذاتی طور پر یہ بڑے گھٹیا، کمینے اور خود غرض لوگ تھے“۔ فرخ سہیل گوئندی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گھٹیا، کمینے اور خود غرض نہیں ہیں۔ انہوں نے جمہوری پبلی کیشنز کا ادارہ بنایا۔ بے پناہ کتابیں شائع کیں۔ ان کی محنت اور دانش سے یہ ملک کا نامور اشاعتی ادارہ بن چکا ہے مگر انہوں نے اس ادارے کی وصیت اپنے ادارے کے کارکنوں کے حق میں کر دی ہے۔
فرخ سہیل گوئندی کا سفر نامہ ”میں ہوں جہاں گرد“ اردو ادب میں ایک نیا شاہکار ہے۔ سوشل میڈیا پر آپ مختلف سفرنامے دیکھتے ہیں۔ مختلف خوبصورت مقامات کی ویڈیوز آپ کو متاثر کرتی ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ اب کتاب کی صورت میں سفرناموں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مگر گوئندی صاحب کا یہ سفرنامہ بتاتا ہے کہ ویڈیو میں آپ صرف دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ویڈیوز آپ کواس شہر یا ملک کے ذائقوں اور خوشبوؤں سے روشناس نہیں کرا سکتیں۔ قدرتی حسن کی نزاکتیں انسان کے جذبات و احساسات کو کیسے متاثر کرتی ہیں اور انسان کی حیران کن خیالات سے کیسے ملاقات ہوتی ہے؟ اس کے لئے گوئندی صاحب کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل اس سفرنامے میں ایک جادو ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور آخری سطر تک حیرتوں سے ملاقات کراتا رہتا ہے۔ تاریخ کے اسرار، کھانوں کے ذائقے، کلچر کے حیران کن رنگ آپ کو اس سفرنامے میں ملتے ہیں۔ ایران، ترکی اور کمیونسٹ بلغاریہ نے پاکستان کو کیسے متاثر کیا؟ یہ سفرنامہ ایک منفرد انداز میں اس کا جواب دیتا ہے۔ گوئندی صاحب ایک پریکٹیکل انسان ہیں۔ کم از کم انہیں خود اپنے متعلق یہی شبہ ہے۔ مگر یہ سفرنامہ بتاتا ہے کہ وہ ایک حذباتی اور خواب دیکھنے والے انسان ہیں۔وہ ایران، ترکی اور بلغاریہ پاکستان کے لئے خوبصورت آئیڈیاز تلاش کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ وہ اتنے نان پریکٹیکل ہیں کہ 200 ڈالر جیب میں آتے ہی آتش کدہ ایران میں چھلانگ لگا کر جدید مذہبی ایران تلاش کرتے ہیں۔ ترکی کی ترقی اور جدت کے پیچھے کارفرما تاریخی محرکات کا سراغ لگاتے رہے ہیں اور بلغاریہ میں نظریات کو انسانوں کی زندگیاں تبدیل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ ان معاشروں کا آپریشن بھی کرتے ہیں مگر اس لیڈی ڈاکٹر کی طرح جو آپریشن کرتی ہے تو خوف سے زیادہ مریض کو سرجن کا حسن مسحور کئے رکھتا ہے۔
گوئندی صاحب بہت زیادہ حسن پرست ہیں مگر انہیں لڑکیوں سے زیادہ حسن تاریخ، قدرتی مناظر اور نئے نظریات میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے قاری کی سوچ کے زاویئے تبدیل کرنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ”میں ہوں جہاں گرد“ ایک ایسی کتاب ہے جو ادب کے طالب علموں کو مدتوں اپنی محبت میں گرفتار رکھے گی۔ زندگی کے نئے مفاہیم سے متعارف کرائے گی اور مستقبل میں سفر کرنے والے حسن لڑکیوں میں نہیں، تاریخ، معاشرت اور نظریات میں تلاش کریں گے۔