سپیشل افراد اور ریاستی ذمہ داریاں۔۔۔

سپیشل افراد اور اقلیتیں ریاست کی رعایا ہوتی ہیں ریاست کی نظر میں تمام افراد برابر ہوتے ہیں پاکستان میں نابینہ افراد اور اپاہج افراد اپنے حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور جلوس بھی نکالے، لیکن ان کے حقوق ابھی تک ان کو نہیں مل سکے سپیشل افراد بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کر کے کسی مقام تک پہنچتے اور روزگار کے حصول کیلئے کوشش کرتے ہیں سرکاری ملازمتوں میں ان کا دو فیصد کوٹہ مخصوص ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ مخصوص افراد بے روزگار ہیں اور مالی مشکلات سے دوچار، پنجاب اسمبلی کے سامنے ان کے اپنے حقوق کی جنگ کے حصول کے لئے مظاہرے اور لاٹھی چارج کا عمل بھی ریکارڈ پر ہے، لیکن ان کی آواز ابھی تک نہیں سنی گئی مزدور کارڈ کے حصول کیلئے معذرو افراد در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی کیا ہی اچھا ہو کہ معاشرہ کے افراد ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کریں یہ بیچارے لاچار آنکھوں کی بینائی سے محروم اور ٹانگوں سے معذرو آخر جائیں تو کہاں جائیں معاشرہ کے مخیر افراد اگر ان سپیشل خاندانوں کے افراد کو اپنا لیں تو یہ بھی بہتر زندگی گذارنے کے قابل ہو سکیں یہ مشکل کام نہیں ہے بعض غیر سرکاری ادارے ان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہے ہیں، لیکن ان کی کفالت کی ذمہ داری بھی بہت ضروری ہے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سپیشل بچوں کے لئے سپیشل پراجیکٹس کا سپیشل ریکارڈقائم تو کر دیا ہے۔ لاہور میں بننے والا پاکستان کا پہلا سرکا ری آٹزم سکول تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے پہلے سرکاری آٹزم سکول میں آٹزم کے مریض بچوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر آٹزم سکول پراجیکٹ کی تکمیل ایک سال میں کی جائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف خصوصی تعلیمی اداروں میں 10آٹزم یونٹس قائم کئے گئے ہیں جہاں آٹزم کے شکار بچوں کے لئے درکار مخصوص تعلیمی سہولیات کی فراہمی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔سپیشل طلبہ کے لئے 9,206 معاون آلات فراہم کئے گئے ہیں، سپیشل طلبہ کو 7,702 آلات سماعت، 360 وہیل چیئرز، 300 واکرز، 344 بیساکھیاں اور 500 سفید چھڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن سسٹم کی بہتری کے لئے 35 سکولوں کو مڈل سے سیکنڈری لیول، پرائمری سکول کی مڈل لیول پر اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے 28 سکولوں کوسنٹر آف ایکسی لینس اَپ گریڈ کرنے کا پراجیکٹ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے بچوں کے لئے کلاس اول سے کلاس 5 تک خصوصی نصاب کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ سماعت سے محروم بچوں کیلئے ترجمہ القرآن کا خصوصی نصاب متعارف کرایا گیا ہے۔ پنجاب میں سپیشل طلبہ کے لئے مخصوص سکل کورسز کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے۔پنجاب میں پہلی مرتبہ نجی اداروں کے اشتراک سے سپیشل طلبہ کے لئے مخصوص اور منفرد جاب فیئر منعقد ہوا جہاں 900طلبہ کی رجسٹریشن کی گئی۔قابل امر ذکریہ ہے کہ 25طلبہ کو ملازمت مل گئی ہے۔سپیشل ایجوکیشن ووکیشنل میٹرک کے پہلے بیج کے 14سپیشل طلبہ نے کامیابی سے امتحان پاس کر لیا۔پنجاب میں سپیشل ایجوکیشن کے معیار تعلیم کوبلندکرنے کیلئے سکول انفارمیشن سسٹم ڈویلپ کیا جا رہاہے،اس کے ساتھ ساتھ سٹیزن ریلیشن شپ مینجمنٹ سسٹم، سپیشل ایجوکیشن موبائل ایپ اور سمارٹ مانیٹرنگ ایپ کی تیاری بھی کی جا ری ہے۔ سپیشل ایجوکیشن مراکز سے صحت یابی کے عمل میں بہتری کے بعد 586طلبہ کا عام سکولوں میں ایڈمیشن کرایا گیا۔ سپیشل طلبہ کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے لئے پہلی مرتبہ شاندار سپورٹس گالہ بھی کرایا گیا۔پنجاب میں آٹھ نئے خصوصی سکولوں کی عمارتوں کی تعمیر مکمل ہوگئی ہیں اور 9 مزید عمارتوں کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔سپیشل ایجوکیشن مراکز میں سلو لرنر طلبہ کیلئے سکریننگ ٹول متعارف کرایا گیا۔ سپیشل بچے ہمارے لئے سپیشل ہیروکی مانند ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن مراکز اور سسٹم میں بہتری کا ہدف ہر صورت پورا کرنے کا مصمم ارداہ ہے۔ پاکستان کے پہلے سرکاری آٹزم سکول کے قیام سے والدین پر مالی بوجھ کم ہو گا۔سپیشل بچوں کی بحالی کا مقصد انہیں معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنانا ہے۔ نابینا نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سرکاری ملازمتوں میں معذوروں کا کوٹہ بڑھانے،اس کوٹے کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور ان نابینا نوجوانوں کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔ پاکستان میں عام لوگوں کی توجہ ایک بار پھر معذور افراد کے مسائل کی طرف مبذول کرا دی ہے۔
پاکستان میں اِس وقت ایک کروڑ سے بھی زائد افراد مختلف قسم کی معذوریوں کا شکار ہیں۔ ان معذور شہریوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جاتا ہے بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں معذور افراد کو شاید انسان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔معاشرہ میں نابینا اور معذرو افراد کو شاید عزت کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا جاتا، ان کے مسائل عام آدمی سے زیادہ ہیں حکومت اگرچہ مزدورں کے مسائل اور ان کے بچوں کی تعلیم پر تو توجہ دے رہی ہے، لیکن سپیشل افراد کو بھی اسی طرح ٹریٹ کرنا چاہئے جس طرح مزدوروں کے بچوں کو کیا جاتا ہے یورپی ممالک میں ان مخصوص افراد کی صحت و تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے معذور افراد اور نابینا افراد کے دو فیصد کوٹہ کو بڑھانے کو بھی پورا کرنا چاہئے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی بہتر اور مثبت انداز میں گذارنے کے قابل ہو سکیں یہ لوگ معاشرہ میں قابل رحم ہیں اور ان کی تعلیم پر ہم توجہ دے کر ان کو ملک کا بہتر اور مفید شہری بنا سکتے ہیں اسلام نے بھی ان پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین کی ہے ایک اسلامی ریاست میں یہ مخصوص طبقہ مخصوص حقوق کا حقدار ہے۔
٭٭٭٭٭