محکمہ ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ ڈیڑھ سو برس پرانا ہے اس میں حالات کیساتھ تبدیلیاں نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی 

 محکمہ ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ ڈیڑھ سو برس پرانا ہے اس میں حالات کیساتھ ...
 محکمہ ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ ڈیڑھ سو برس پرانا ہے اس میں حالات کیساتھ تبدیلیاں نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:75
پھر1866ء میں برطانیہ میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ڈاک کے تھیلے کی خود کار ترسیل اور وصولی کا ایک محفوظ طریقہ اپنایا گیاجو 100سال مکمل کرکے ابھی کچھ ہی برس پہلے تک استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس میں کچھ یوں ہوتا تھا کہ اس اسٹیشن سے بھیجی جانے والی ڈاک کے تھیلے  پٹری کے پاس لگے ہوئے ایک خصوصی کھمبے، جسے میل کرین بھی کہا جاتا تھا، پرلٹکا دئیے جاتے تھے، اور اس کھمبے سے کچھ پہلے رسیوں کا ایک مضبوط جال تنا ہواہوتا تھا۔ جیسے ہی تیز رفتار گاڑی اس کھمبے کے قریب پہنچتی تو ڈاک کے ڈبے کے ایک دروازے سے خودکار طریقے سے ایک آہنی آنکڑہ اور جال باہر نکلتا اور وہ کھمبے پر لٹکتے ہوئے ڈاک کے تھیلوں کے پیچھے گْھس کر ان کو اپنی آغوش میں لے کر اندر کھینچ لیتا۔ اسی دوران پچھلے دروازے سے کوئی دوسرا ملازم اس اسٹیشن کی ڈاک والا تھیلا نیچے تنے ہوئے جال میں پھینک دیتا تھا۔ یہ دونوں کام صرف چند سیکنڈ میں تکمیل پا جاتے اور اس کے لیے گاڑی کو روکنا یا اس کی رفتار کو بھی نہیں توڑنا پڑتا تھا اور نہ ہی کسی وجہ سے ڈاک کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا۔ ایسے ہی کسی مقام پر ڈاک کے تھیلوں کا تبادلہ بھی ہوتا تھا جہاں دوسری سمت سے آنے جانے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے ڈاک کے تھیلے وصول کر لیا کرتی تھیں۔
اب زمانہ بہت بدل گیا ہے، ڈاک کی ترسیل کے دوسرے طریقے آجانے سے کام کا دباؤ بھی کم ہو گیا ہے، ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ مرکزی ڈاک خانے میں ہی اس میل گاڑی کے ذریعے مختلف شہروں کو بھیجی جانے والی ڈاک کے مختلف تھیلے بنا لیے جاتے ہیں اور وہ اسی طرح پوسٹل وین میں پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح راستے میں مختلف اسٹیشنوں سے چڑھائی جانے والی ڈاک کے تھیلے بھی ان کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں جو ان کی چھانٹی کرکے متعلقہ اسٹیشنوں پر دیتے جاتے ہیں۔البتہ راستے میں آنے والی یا تھیلوں کے بغیر آئی ہوئی ڈاک کی اب بھی اسی ڈبے کے اندر ہی چھانٹی ہوتی ہے۔
مسافر گاڑیوں میں ڈبوں کی تعداد
مختلف تکنیکی وجوہات کی بنا ء پر پاکستان میں مسافر گاڑیوں میں زیادہ سے زیادہ انیس بیس ڈبے لگائے جاتے ہیں وہ بھی ان مسافر گاڑیوں پر جو لمبے سفر پر جاتی ہیں اور صرف بڑے اسٹیشنوں پر ہی ٹھہرتی ہیں ورنہ پاکستان کی ایک روایتی اور عام گاڑی میں بارہ تیرہ ڈبے ہی لگائے جاتے ہیں۔
اس کی وجہ ایک تو وہ ہی ہے کہ محکمہ ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ ڈیڑھ سو برس پرانا ہے اور اس میں حالات کے ساتھ کبھی بھی تبدیلیاں نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔نتیجتاً پٹریاں اور پْل وغیرہ اپنی کارآمد عمر گزار کر کافی کمزور ہو چکے ہیں۔ کچھ مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر جہاں گاڑی کو ایک سو کلومیٹر کی رفتار تک جانے کی اجازت ہے، ریلوے لائن کے زیادہ تر حصوں پر پینسٹھ ستر کلومیٹر سے زیادہ رفتار نہیں بڑھائی جا سکتی، خصوصاً سندھ میں پٹری کے کچھ حصے تو اس حد تک خستہ اور بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ وہاں حد رفتار کوکم کر کے 30 کلومیٹر تک لانا پڑتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -