تاریخ بتاتی ہے جس حکمران نے انصاف سے گریز کیا وہ نہیں رہا،مسلمانوں کے نظام انصاف میں خرابی  تب پیدا ہوئی جب لالچ معاشرے میں بڑھ گیا

 تاریخ بتاتی ہے جس حکمران نے انصاف سے گریز کیا وہ نہیں رہا،مسلمانوں کے نظام ...
 تاریخ بتاتی ہے جس حکمران نے انصاف سے گریز کیا وہ نہیں رہا،مسلمانوں کے نظام انصاف میں خرابی  تب پیدا ہوئی جب لالچ معاشرے میں بڑھ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:61
 سرسید احمد خان کی حمایت میں بہت سے علماء کرام میدان عمل میں آ گئے جنہوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی تلقین شروع کی۔ انگریزی طریق تعلیم کی مخالفت کرنے والے آج بھی برصغیر کے مسلمانوں میں موجود ہیں جو انگریزی زبان کی تعلیم کو آج بھی کفر خیال کرتے ہیں۔ بیمار ہو جائیں تو انگریزی ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔ ریل گاڑی، موٹر کار، ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے بچے انگریزی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سرسید احمد خان کے ساتھ علماء کرام اور اعلیٰ تعلیم یافتہ باشعور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی ٹیم تھی اور پھر اُسی زمانہ میں بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور حکیم الامت علامہ اقبالؒ جیسے نابغہئ روزگار مسلمان لیڈر پیدا ہوئے۔ یہ وہ لیڈر تھے جنہوں نے سرسید احمد خان کے مشن کو پروان چڑھایا اور آگے بڑھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیٰحدہ وطن مل گیا۔
آئیے برصغیر میں عدالتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں۔ انگریزوں کی حکمرانی سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت جب تک اور جہاں جہاں قائم رہی ہے وہاں اسلام کے نظام عدالت سے غیر مسلموں کو بھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ مسلمان قاضی مدعی اور مدعا علیہ کے مذہب اور عقائد کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اس لیے مسلمان قاضی عیسائی اور دیگر مذاہب کے علماء کی شہادت بھی قلم بند کرتے تھے اور مسلمان مدعی و مدعا علیہ کی صورت میں ان کے فرقہ کی فقہ کے مطابق فیصلے کئے جاتے۔ انگریزی قانون میں عیسائی اور غیر عیسائی فریقین کے درمیان انصاف کرنے کا طریق کار مسلمانوں سے ہی مستعار لیا گیا۔ کیونکہ اینگلو سیکسن قانون میں تو فرقوں کے بارے میں کچھ نہیں ہے ایسی صورتحال کا سامنا اُنہیں برصغیر میں ہی کرنا پڑا۔ مسلمانوں کا نظام انصاف بڑا مضبوط اور بے لاگ رہا ہے مگر اس میں خرابی وہاں آ کر پیدا ہوئی جہاں ترغیبات اور لالچ معاشرہ میں بڑھ گیا۔ یہ علامت ہے کہ جہاں مسلمانوں کی اخلاقی اقدار کمزور ہوئیں وہاں انصاف کا عمل بھی متاثر ہو گیا۔ یہ خامیاں کب اور کیسے شروع ہوئیں یہ ہمارا موضوع نہیں ہم برصغیر میں عدالتی نظام کا جائزہ لیں گے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی یا مکاری سے حاصل کر لی۔ انہوں نے مسلمانوں کے طرز حکومت کی تمام اچھائیوں کو انگریزی نظام کے لئے اپنا لیا۔ انہوں نے عدالتوں پر ایک مضبوط اخلاقی نظام قائم کیا جو قانونی نظام کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
پاکستان کا موجودہ نظام ایک طویل عرصہ کے تجربات و مشاہدات کے بعد وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کی قانونی تاریخ کو بڑی آسانی سے 4 مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں (1) ہندو زمانہ، (2) مسلم حکمرانی کا دور جس میں مغلیہ عہد حکومت بھی شامل ہے۔ (3)برطانوی کالونیل عرصہ اور (4)قیام پاکستان کے بعد کی گئیں اصلاحات اور ترقیاتی عمل۔
ہندو عہد حکمرانی میں بھی یقینا انصاف ہوتا ہو گا کیونکہ عوام پر حکومت کرنے کے لئے سب سے ضروری عمل یہی ہے کہ عوام کو ہر طرح اور ہر وقت انصاف مہیا کیا جائے۔ ہندوستان میں جو لوگ بھی حکمران رہتے ہیں وہ عوام کی بہبود اور خوشحالی کے نام پر رہتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جس حکمران نے انصاف سے گریز کیا وہ حکمران نہیں رہا۔ مسلمانوں کے عہد حکومت میں انصاف کرنا اللہ اور اُس کے رسول مقبول ﷺ کے لازمی احکام میں شامل ہے اور یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں اتنی مثالیں زبان زد عام و خاص ہیں کہ یہ مثالیں بن چکی ہیں۔ برص غیر میں مسلمانوں کے مختلف ادوار حکومت میں مسلمانوں کی مختصر تعداد کے باوجود غیر مسلم عوام کی اکثریت پر حکمرانی کی وجہ مسلمانوں کی انصاف پسندی ہی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -