برہمن مودی کے گجرات میں دلتوں کی زبردست تحریک

برہمن مودی کے گجرات میں دلتوں کی زبردست تحریک
 برہمن مودی کے گجرات میں دلتوں کی زبردست تحریک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارا میڈیا ابھی پختگی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ میڈیا بہت سی عالمی معلومات بھی فراہم کرتا ہے، لیکن پھر بھی بہت سی حقیقی کارآمد معلومات سے ہم بے بہرہ رہتے ہیں۔ اپنے پڑوسی ملک بھارت کے حالات کے بارے میں ہماری تلاش اور کھوج اس درجے کی نہیں ہے،جس درجے کی ہونا چاہیے تھی۔ہماری معلومات، عالمی میڈیا کی مرہونِ منت ہیں یا اس بھارتی میڈیا پر انحصار ہے جو اپنی گندگی کو ہمیشہ قالین کے نیچے دھکیلنے کا کام بااحسن و خوبی انجام دے رہا ہے۔بھارت میں جہاں دوسرے بہت سے امور بھارت کی اپنی پیش کردہ تصویر کو گھناؤنا بناتے ہیں وہاں ایک معاملہ دلتوں کا بھی ہے۔ ہندو معاشرے میں دلت، جنہیں اچھوت، شودر اور انگریزی میں Untouchable بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا مظلوم ترین طبقہ ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں انسانوں سے وہ سلوک روا نہیں رکھا جاتا اور نہ رکھا جا سکتا ہے جیسا سلوک دوسرے ہندو طبقات بالعموم اور ہندو برہمن بالخصوص دلتوں سے روا رکھتے ہیں۔


نیشنل جیو گرافک کے شعبہ خبر کے مطابق بھارت میں سولہ کروڑ انسانوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ کثیر تعداد پیدائشی طور پراس ذلت ورسوائی کا سبب گردانی جاتی ہے۔ اس کا سبب ہندو مت میں ذات پات کا ازلی اور ابدی تصور ہے، یعنی کوئی دلت کسی طرح اپنے طبقے سے نہیں نکل سکتا۔ ان مظلوم انسانوں کو انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا ،کجا کہ انہیں انسانی حقوق میسر ہوں۔ بھارت کے عام میڈیا میں جہاں ان مظلوموں کے لئے کوئی خاص نرم گوشہ موجود نہیں ہے لیکن نیشنل جیوگرافک کے مطابق چند اخبارات کی سرخیوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’دلت کو پھول توڑنے کے جرم میں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ‘‘۔۔۔’’دلت پر پولیس والے مسلسل تین دن تک بد ترین تشدد کرتے رہے۔ ‘‘۔۔۔’’بہار میں دلت کو ننگا کر کے بازاروں میں گھمایا گیا۔‘‘۔۔۔’’فیکٹری کی بندش کے معاملے پر دلت ہلاک‘‘۔۔۔ ’’ذات پات کی لڑائی میں سات دلت مار دیئے گئے۔‘‘ ۔۔۔ ’’ ہریانہ میں پانچ دلتوں کو پتھر مار کر ہلاک کردیا گیا۔‘‘۔۔۔ ’’دلت عورت کو گینگ ریپ کے بعد ننگا کر کے شہر میں گھمایا گیا۔‘‘ ’’ پولیس کے سامنے اور مدد اور تعاون سے دلتوں کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
دلت اس کنویں کا پانی نہیں پی سکتے جس سے اعلیٰ ذات کے ہندو پانی پیتے ہوں۔ وہ ہندو ہو کر بھی ہندوؤں کے مندر میں پوجا کے لئے نہیں جاسکتے، اعلیٰ ذات ہندو کے سامنے پاؤں میں پیزارنہیں پہن سکے، وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے برتن میں کھا اور پی نہیں سکتے۔ نیشنل جیو گرافک کو یہ معلومات ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے والی سمیتا نرولا نے فراہم کیں۔ دلتوں کومجبور کر کے ذلیل ترین کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، وہ لوگوں کی گندگی اُٹھاتے اور نالیاں ،گٹر صاف کرتے اور مرنے والے جانوروں کی گلی سٹری بد بو دار لاشیں اُٹھاتے ہیں بھارت میں نوے فیصد غریب لوگ اور 95 فی صد دلت ان پڑھ ہیں۔ بھارت میں اس وقت دلتوں کی ایک زبر دست تحریک جاری ہے اور یہ دوسرے لوگوں کے غم میں گھلنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے صوبے گجرات میں چل رہی ہے۔ افسوس، اس تحریک کے بارے میں پاکستانی میڈیا میں کوئی خبریں نہیں آئیں۔ عالمی حقوق کے ٹھیکیدار اس پر کیوں خاموش رہے ہیں؟ یہ سوال پاکستانی میڈیا کو اُٹھانا چاہیے۔ بھارتی صوبہ گجرات کا ایک دلت رہنما جگدیش میوانی اس وقت بہت سرگرم ہے۔ جگدیش میوانی نے گزشتہ دنوں نئی دہلی پریس کلب میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی۔ بھارتی صحافی پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے،ایسے ایسے سوالات کئے جنہیں ڈاکٹر اربندوگھوس نے ’’انٹیروگیشن‘‘ کا نام دیا۔ اس پریس کانفرنس میں بھرپور حاضری تھی، لیکن جس طرح جگدیش میوانی نے ٹھنڈے ٹھنڈے ان سوالات کے جوابات دیئے اور ان صحافیوں کو خاموش کرادیا، وہ بہت حیران کن تھا، ان صحافیوں میں بھی گجرات کے میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت تھی۔
جگدیش میوانی نے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اور بی جے پی پر بھرپور حملے کئے اور نریندر مودی کو دوسروں کے حقوق کا ٹھیکیدار بننے کے سلسلے میں حقیقی آئینہ دکھا دیا۔ جگدیش میوانی اب تک ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سے وابستہ تھے، انہوں نے اسی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو گواہ بنا کر پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی جدوجہد پر کسی سیاسی جماعت یا سیاست کی چھاپ لگے۔ جگدیش میوانی کی یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹے تک جاری رہی، جگدیش نے دلتوں پر ہونے والے مظالم پر سخت احتجاج کیا اور اس سلسلے میں نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے خاص طور پر اس وڈیو کا ذکر کیا، جس میں 11جولائی 2016ء کو چار دلتوں کو کوڑے مارے گئے انہیں گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا اور اسی طرح گھسیٹ کر پولیس تھانے پہنچا دیا گیا، لیکن پولیس نے مارنے والوں اور گھسیٹنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔جگدیش میوانی نے اس پریس کانفرنس میں دلت برادری کے اس عہد کا ذکر کیا جس کے مطابق انہوں نے گندگی اٹھانے نالیاں صاف کرنے اور گندی لاشیں اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ جگدیش نے ’’دلت اتیا چار لڑائی سمیتی‘‘ کے مطالبے کو دہرایا کہ دلتوں کے ہر خاندان کو پانچ ایکڑ زرعی اراضی الاٹ کی جائے۔ جگدیش میوانی اس دلت اتیا چار لڑائی سمیتی کے کنونیئر ہیں۔ سمیتی کا مطالبہ ہے کہ انہیں زرعی اراضی الاٹ کر دی جائے تاکہ وہ باعزت روزی روٹی کما سکیں۔اس پریس کانفرنس سے چند روز پہلے اناؤ سے احمد آباد تک نکالی گئی ریلی کا ذکر بھی آیا۔ یہ ایک تاریخی ریلی تھی، جس میں دلتوں کے ہمدردوں اور حمایتیوں نے بھی شرکت کی جن میں مسلمان بہت نمایاں تھے۔جگدیش میوانی اس مارچ سے بہت حوصلہ مند تھے۔ اس لئے انہوں نے کہا اب یہ تحریک صرف گجرات تک محدود نہیں رہے گی، اسے سارے بھارت میں پھیلایا جائے گا اور بھارت کی تمام انصاف پسند برادریوں سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔


اس موقع پر دلتوں کے نعرے کی ذومعنی حیثیت اور دلچسپی بھی قابل غور ہے۔ دلتوں نے نعرہ اپنایا ہے جو گجراتی زبان میں یوں ہے ’’گیانوں پُوچھڑو تامے رکھو، امی اماری جمین آپو‘‘ ۔۔۔(’’گائے کی دُم تم پکڑے رکھو،ہمیں زمین دے دو‘‘)۔۔۔ یہ نعرہ اس لحاظ سے دلچسپ اور طنز پر مبنی ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو انسان کو انسان نہیں سمجھتے لیکن گائے کے تقدس کے قائل ہیں اور اکثر گائے کے تقدس کی خاطر مسلمانوں کو اور اچھوتوں کو جان سے مار دیتے ہیں۔ یعنی انسانی جان پر گائے کے تقدس کو برتری حاصل ہے۔ دلتوں کے نعرے میں اسی ذہنیت پر گہرا طنز کیا گیا ہے کہ گائے تمہیں مبارک ہو اس کی دُم پکڑے رکھو۔ ہمیں زمین دے دو، تاکہ ہم تمہیں دکھا دیں کہ ہم بھی تمہاری طرح انسان ہیں۔ گائے کی دم پکڑنے سے طنز کا ایک یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ ہندو گائے کی دُم پکڑ کر گائے کا پیشاب جمع کرتے ہیں اور اسے بہت تقدس اور احترام کے جذبات کے ساتھ پیتے ہیں۔ اچھوت بے چارے کئی طرح کی گندگی اٹھانے پر مجبور ہیں، لیکن وہ گائے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں اور اس کے پیشاب کے لئے گائے کی دُم نہیں پکڑتے۔ اچھوتوں کا مسئلہ آج کا نہیں ہے،یہ بہت قدیم ہے، لیکن نریندر مودی کے دور میں اچھوتوں کو پتھراؤ کرکے مار دینا، روزمرہ کی کہانی بن گئی ہے۔ اس سے قبل بعض ہندو لیڈر زبانی اور دکھاوے کی خاطر اچھوتوں سے ہمدردی کا اظہار کیا کرتے تھے، اگرچہ عملی طور پر انہوں نے اچھوتوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا، لیکن نریندر مودی اور بی جے پی کی تو پارٹی لائن ہی اچھوتوں کے خلاف نفرت ہے۔ گٹوماتا کا پالن اور اقلیتوں کے خلاف مظالم اس کا طرۂ امتیاز ہے۔


گاندھی جی نے اچھوتوں کو ’’ہریجن‘‘ کا نام دیا جس کا مطلب ہے’’ہری کے بیٹے‘‘لیکن نام کی اس تبدیلی سے دلتوں کی تقدیر نہیں بدلی۔ وہ اسی طرح ذلیل رہے، اسی طرح گاندھی جی شودروں کی بستی میں کبھی کبھی جا کر ڈیرا لگاتے تھے اور اس سے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ خود ان لوگوں کے ساتھ رہ کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ لیکن شودروں کی بستی میں جگہ اچھی طرح دھو کر ان کے لئے خیمہ نصب کیا جاتا تھا اور گاندھی جی وہاں چنددن رہ کر واپس اپنی زندگی کے معمولات کی طرف لوٹ جاتے تھے جن کی عزت افزائی کے لئے وہ ان کے درمیان جا کر رہتے تھے وہ اسی طرح وہیں رہ جاتے تھے۔ انہیں کبھی اعلیٰ سوسائٹی میں لے جانے کی کوشش گاندھی جی نے بھی نہیں کی، نہ ان کی پیدائشی ذلت اور ذلیل کام چھڑانے کی کوئی تجویز دی۔ بھارت کی آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ یوں ہی جاری ہے براہمداغ بگتی اور حامد کرزئی کو دوسرے ملکوں کے عوام کے لئے آواز اُٹھانے پر نریندر مودی کی قصیدہ خوانی کی بجائے نریندر مودی کو اپنے ملک میں سولہ کروڑ دلتوں کو انسان ماننے کے لئے زندہ ضمیر چاہیے۔ نریندر مودی کسی دوسرے ملک کے لوگوں کے مطالبے کے بغیر ان کی آزادی کے لئے تعریف و توصیف موصول کرنے سے پہلے اپنے ملک کے سولہ کروڑ دلتوں کو برہمن مافیا سے آزادی دلائیں۔ اور نہیں تو اپنے صوبے گجرات میں چلنے والی دلت اتیا چار لڑائی سمیتی ہی کی سن لیں۔
تو کار زمیں را نکو ساختی؟
کہ برآسماں نیز پرداختی؟

مزید :

کالم -