دریائے سندھ کے جن 

 دریائے سندھ کے جن 
 دریائے سندھ کے جن 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں زندگی کا انحصار بحیرہ عرب اور کوہ ہمالیہ پر ہے، بحیرہ عرب سے ہوائیں پانی لے کر بادلوں کی صورت اختیار کر کے سفر کا آغاز کرتی ہیں کوہ ہمالیہ کے دیوقامت پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں اور ابر رحمت بن کر زمین کو گل و گلزار کر دیتی ہیں۔ بادلوں کا پانی ندی نالوں کی صورت میں دریا بناتا ہے یہ دریا پاکستان کے کھیتوں میں آب حیات فراہم کرتے ہیں اور فصلیں انسانوں اور جانور وں کے لئے اناج پیدا کر کے ان کی زندگی یقینی بناتی ہیں، قدرت کا یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ زندگی کو ممکن بنانے کے لئے قدرت کیسے کیسے منصوبے بناتی ہے؟
آسمان سے اگر زمین پر دیکھا جائے تو دریائے سندھ پرنظر پڑتی ہے جو اپنے سفر کا آغاز چین کی جھیل مین سروور (MANSROWAR) سے کرتا ہے۔ ہندو مذہب میں اس جھیل کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے ہر سال ہزاروں ہندو یاتری یہاں پوجا کے لئے آتے ہیں ان کے ہاں اس جھیل سے متعلق مافوق الفطرت داستانیں مشہور ہیں مگر ان داستانوں سے بھی مافوق الفطرت دریائے سندھ ہے جو یہاں سے سفر کا آغاز کر کے 29سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بحیرہ عرب کا حصہ بنتا ہے صدیوں سے یہ دریا وادی سندھ میں زندگی کے رنگا رنگ جلوے بھی دکھاتا رہا ہے اور غضب ناک ہو کر زندگی چھینتا بھی رہا ہے، آسمان سے دریائے سندھ کو دیکھا جائے تو اس کا شور اور تندی حیران کرتی ہے مگر جیسے ہی یہ صوبہ خیبرپختونحوا میں داخل ہوتا ہے بتدریج اس کے غضب میں قدرے سکون نظر آتا ہے اور پھر یہ عظیم دریا ڈھائی سو مربع میل ایک حیرت انگیز جھیل میں غائب ہوتا نظر آتا ہے یہ جھیل حیرت انگیز انسانوں نے بنائی ہے۔ ایسے انسانوں نے جو جنوں کو قابو کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور جن کے حوصلے ہمالیہ کی طرح بلند ہیں دریائے سندھ کا غضب جو تباہی پھیلاتا تھا اس پر بڑی حد تک قابو پا کر اس کو انسانوں کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے اب اس دریا کا پانی پاکستان کی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے اور دریائے سندھ کی طاقت کو بجلی میں منتقل کیا جا رہے ہے جس سے کروڑوں گھر روشن ہو رہے ہیں زندگی کے پہیے کی رفتار حیران کن حد تک تیز ہو گئی ہے۔
چند عشرے قبل تربیلا دریائے سندھ کے کنارے ایک گاؤں تھا مگر اب یہ گاؤں اپنا وجود کھو بیٹھا ہے اس کی جگہ تربیلا ڈیم قائم ہے تربیلا گاؤں ہی نہیں بلکہ یہاں کے 120دیہات خالی ہوئے اور انہوں نے اپنا کل پاکستان کے آج اور مستقبل کے لئے قربان کر دیا، یہ 96ہزار افراد جو یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں منتقل ہوئے قوم کے ہیرو ہیں۔+


تربیلا ڈیم پاکستان کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اسے دیکھنے کی خواہش ہمیں تربیلا ڈیم لے گئی، اس عظیم منصوبے کے دروازے ڈاکٹر رانا عابد کی مہربانی سے کھل گئے تعلقات عامہ کے فن کو خوبصورت انسانی صورت دی جائے تو وہ ڈاکٹر رانا عابد ہوں گے، نرم دم گفتگو گرم دم جستجو راناعابدواپڈا کی خدمات کا محبت سے ذکر کرتے ہیں۔ وہ ان انجینئروں کے متعلق بتاتے ہیں جنہوں نے دن رات کام کر کے اس منصوبے کو مکمل کیا تھا تربیلا ڈیم جا کر اندازہ ہوا کہ یہ اتنا بڑا ہے کہ اسے دو آنکھوں کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا یہاں کے انجینئروں نے دریائے سندھ کے پانی کو تربیلا ڈیم میں زنجیریں تو ڈال رکھی ہیں مگر یہ دریا ہمہ وقت مٹی اور پتھر کی دیواروں کے ساتھ سر پٹختا رہتا ہے جو اسے بے لگام نہیں ہونے دیتیں، جدیدترین ٹیکنالوجی کے ذریعے اس بڑی جھیل کی ہر دیوار پر پانی کے دباؤ کو دیکھا جاتا ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کہیں دریائے سندھ کے پانی کا جن بے قابو نہ ہو جائے اور اگر کسی وقت یہ جن بے لگام ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے اس کا تصور ہی خوفناک ہے، آپ یوں سمجھیں کہ بے قابو تربیلا کا پانی پاکستان کے بڑے حصے کو جھیل بنا کر یہاں زندگی مشکل بنا دے گا مگر واپڈا کے انجینئر اور دوسرا عملہ ہمہ وقت چوکس رہتا ہے ہر وقت دریا کی مانیٹرنگ کے لئے جدیدترین آلات پر واپڈا کے اہلکار اسی طرح مستعد رہتے ہیں جیسے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے نیند اپنے اوپر حرام کر دی ہے۔


ذیشان بتا رہا تھا کہ جب اس پراجیکٹ کا آغاز ہوا تو ان کے والد کوہاٹ سے آئے، اس وقت یہ ایک جنگل تھا جس میں ہزاروں دیوانے دریائے سندھ کے پانی کو قابو کرنے کے لئے چلے کاٹ رہے تھے ایک اطالوی فرم نے بنیادی طور پر اس پراجیکٹ کو بنانا شروع کیا تھا، ذیشان اپنے والد کی یادوں کو زبان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وقت بڑے جوش اور ولولے کا تھا جب اس قوم کی تقدیر تبدیل کرنے کے لئے پورے پاکستان سے لوگ یہاں آباد ہو رہے تھے اور دن رات اس پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے تربیلا میں کچھ وقت گزاریں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک الگ دنیا ہے، صوفیوں کی طرح دنیا سے کٹ کر رہنے والے لوگ پاکستان میں جدید زندگی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ہمہ وقت چلے کاٹتے رہے ہیں۔
گزشتہ روز ایک دانشور لوڈشیڈنگ پر واپڈا کی شان میں گستاخی کر رہے تھے جب میں نے انہیں بتایا کہ اب واپڈا کا بجلی کی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اب بجلی بنانے کے لئے پانی فراہم کرتی ہے اور اس کے انجینئر ملک بھر کی نہروں تک پانی پہنچانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور واپڈا کا فراہم کردہ پانی جو بجلی پیدا کرتا ہے اس کی لاگت ڈھائی روپے فی یونٹ سے زائد نہیں ہے مگر ہمارے یہ دانشور دوست ہم سے یہ سچ سن کر ناراض ہو گئے کیونکہ پاکستان کی دانشوری کی روایات کے مطابق سچ وہ نہیں ہوتا جو زمین پر ہو، سچ صرف وہ ہوتا ہے جو دانشور کے دماغ میں ہو۔


اقبالؒ نے کہا تھا
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
اقبالؒ نے جب یہ شعر لکھا تھا اس وقت برصغیر کے مسلمان غلامی کے بدترین اندھیروں سے گزر رہے تھے مگر انہیں آزاد وطن پاکستان دکھائی دے رہا تھا۔ اگر آپ تربیلا ڈیم دیکھیں، وہاں کام کرنے والے لوگوں کی لگن اور جذبے کا تجربہ کریں تو آپ کو بھی پاکستان کا مستقبل روشن نظر آئے گا پاکستان کے انجینئروں نے اس ملک کے لئے تربیلا ڈیم بنا دیا ایٹم بم بنا دیا مگر سیاستدان یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے یا نہیں۔ کالاباغ ڈیم بننے کی مخالفت کرنے والوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا مگر پاکستان کی ترقی کو سب سے زیادہ کالاباغ ڈیم بنانے کے حامیوں نے نقصان پہنچایا وہ کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے ان کے شور شرابے سے پاکستان میں مدتوں کوئی دوسرا ڈیم بھی نہیں بن سکا۔ بعض اوقات آپ کے دوست آپ کے دشمنوں سے بھی زیادہ آپ کے دشمن ثابت ہوتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -