گُم گزشتہ عزت 

 گُم گزشتہ عزت 
 گُم گزشتہ عزت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سانحہ مری کی رپورٹ آ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں بیورو کریٹ اور پولیس افسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ مری کے برف کے پہاڑکو کھود کر اس سے زیادہ چوہے برآمد نہیں کئے جا سکتے تھے۔ امید ہے کہ اب عوام شانت ہو جائیں گے۔ حکومت کا بول بالا ہو گا اور راوی میں پانی آئے یا نہ آئے۔ راوی چین ہی چین لکھنا شروع کر دے گا اور اگر کچھ بھی نہیں ہو گا تو پھر بھی گلشن کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا اور کچھ عرصہ بعد مری میں بھی ہوٹلوں کا کاروبار دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ بائیکاٹ مری کی مہم اسی طرح ختم ہو جائے گی جیسے اسرائیل سے نفرت کے بھرپور اظہار کے باوجود ”کولا مشروبات“ کے بائیکاٹ کی کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکی۔


امید ہے کہ اہل پاکستان کی طرح اہل مری بھی اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے۔ اگر آئندہ کبھی برف باری نے موقعہ فراہم کیا تو وہاں ہوٹل ایک لاکھ روپیہ کرایہ پر ملیں گے اور امید ہے کہ انہوں نے وہ انڈے بھی سنبھال کر رکھ لئے ہیں جو فی انڈہ پانچ ہزار روپے فروخت کریں گے۔ پاکستان اتنا سخت ملک ہے جہاں کچھ بھی تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں تبدیل کرنے والوں کو خود تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ سانحہ مری کے نتیجے میں جو افسر تبدیل ہوئے ہیں وہ بھی کچھ زیادہ پریشان نہیں ہوں گے کیونکہ پوسٹنگ کے ساتھ ہی اب ہر افسر کو یقین ہوتا ہے کہ اس نے جلد یا بدیر تبدیل ہونا ہے اور اکثر اس کی تبدیلی میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہو گی۔ اب تو افسروں نے اس طرح کی تبدیلی کو معمول کی کارروائی سمجھ لیا ہے۔


بھارت اور پاکستان میں تعصب سے بالاتر ہو کر سوچنے والے دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ انگریزوں نے برصغیر کو ایک اچھا انتظامی ڈھانچہ دیا تھا۔ پرکاش ٹنڈن اپنی کتاب "PUNJAB SAGA" میں بتاتے ہیں کہ پنجاب میں جب سکھ راج ختم ہوا تو برطانوی ہندوستانی فوجی بازاروں میں خریداری کرتے ہوئے اشیاء کی قیمت ادا کرتے تھے تو دکانداروں کو حیرانی ہوتی تھی کیونکہ سکھ راج میں سپاہی بلاقیمت کوئی بھی چیز اٹھا کر لے جاتے تھے۔ انگریزوں نے نصابی کتب میں انگریزی راج کی جو برکات بیان کی تھیں ان میں امن و امان کے قیام کو سرفہرست بیان کیا جاتا تھا۔ انگریز  بیوروکریسی کو اپنی حکومت کا سٹیل سٹرکچر قرار دیتا تھا۔ 


سیاست دانوں کو جتنا برا بھی قرار دے دیں مگر جب آپ ووٹ ڈالتے ہیں ان پر ہی نہیں جمہوریت پر بھی اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں۔ اگر امن و امان قائم کرنا ہے۔ لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنی ہیں تو آپ کو پولیس اور بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں اور بیورو کریٹ پر نااہل اور کرپٹ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس کے حق میں ثبوتوں کے پلندے پیش کئے جاتے ہیں اور ان سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو معاشرے سے ختم کر دیں تو آپ کا نظام ختم ہو جائے گا۔ حالیہ تاریخ میں عراق، لیبیا اور افغانستان جیسے ممالک میں جہاں نظام ختم ہوا، وہاں معاملات خراب ہوئے ہیں اور ان میں بہتری کی امید بھی ختم ہو گئی ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نظام کو بہتر ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں اور بیورو کریسی کو عوام کی حقیقی خدمت کرنی چاہیے۔ مگر ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صورت حال خراب ہو رہی ہے اور کسی بڑے بحران یا حادثے کے خطرات تیزی کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔


پاکستانی معاشرے میں فتح اور شکست کے تصورات بہت مضبوط ہیں۔ فتح کا مطلب عزت اور شکست کا مطلب ذلت ہے۔ آپ دوسروں کو شکست دیئے بغیر فتح نہیں حاصل کرتے اور اکثر صورتوں میں عزت حاصل کرنے کے لئے دوسروں کو ذلیل کرنا ضروری ہے۔ ہم اپنی بات بڑھانے سے پہلے عزت کے تصور کا جائزہ لیتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں ہمارے جیسا عزت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ نوجوان لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جائے تو پورا خاندان دائمی ذلت کے احساس میں مبتلا ہو جاتا ہے مگر مغرب میں لڑکی کی ایسی حرکت کو ایڈونچر قرار دیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی بالغ ہونے کے باوجود قابل اعتراض حرکتیں کرنے سے پرہیز کرے تو والدین پریشان ہو جاتے ہیں اور اسے ماہر نفسیات کے پاس لے جاتے ہیں۔


اناطول لیون نے اپنی کتاب "PSKISTAN-A Hard Country" میں عزت کے معاملے پر بڑی دلچسپ گفتگو کی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں ”عزت یا غیرت اور بے عزتی کے تصورات پاکستان کے زیادہ تر حصوں کی ثقافت کا بنیادی حصہ ہیں۔ کوئی شخص یا خاندان، جو مخصوص نوعیت کی ہتک یا تشدد کے ذریعے ہونے والے نقصان کا بدلہ لینے میں ناکام رہتا ہے، اپنی برادری اور خود اپنی نگاہوں میں بے عزت ٹھہرتا ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ بری نہیں ہو سکتی۔ بے عزتی کا مطلب ہے بے حیثیت ہو جانا اور بے حیثیت ہو جانے کا مطلب ہے کہ اس خاندان کے آئندہ کے امکانات ہر اعتبار سے مدہم پڑ جاتے ہیں۔ ایک برطانوی نوآبادیاتی جج سرسیسل والش نے لکھا ہے:

”ہر ہندوستانی، اعلیٰ تر سے اسفل تر، کے پاس سنبھالنے کو اپنی عزت یا اپنا نام ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے کے بعد، یہ اس کی عزیز ترین متاع ہوتی ہے اور اگر اسے ٹھیس پہنچے تو وہ بے حد ناخوش ہوتا ہے اور ایسی حساس قوم میں کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں عزت کو ٹھیس پہنچانا سب سے زیادہ آسان ہے۔ یہ ٹھیس بالکل خیالی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی بڑی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ وہ نہ اسے بھولے گا اور نہ اس کا سبب بننے والے افراد کو معاف کرے گا۔“
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سیاستدانوں اور بیورو کریسی کو بے عزت کرنے کے لئے ایک کلچر کا آغاز کیا۔ عوام جب ایسے لوگوں کو بے عزت ہوتے ہوئے دیکھتے تھے جو انہیں بے عزت اور ذلیل کرتے تھے تو بھٹو کی عزت میں اضافہ ہوتا تھا۔ بھٹو دور کے ایک صوبائی وزیر افتخار تاری نے مجھے بتایا تھا کہ ہم نے اس قوم پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا تھا کہ ہم نے یہاں لوگوں کو بے عزت کرنے کے کلچر کو فروغ دیا تھا۔ بھٹو نے عوامی مقبولیت حاصل کی مگر اس نے جنہیں بے عزت کیا تھا انہوں نے انہیں معاف نہیں کیا۔ بھٹو کوئی بھی بڑا عہدہ دینے سے پہلے متعلقہ افراد کو ذلت کا مزہ ضرور چکھاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں جنرل ضیاالحق بھی شامل تھے جنہوں نے بعدازاں انہیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ جناب بھٹو پھانسی پر اس لئے لٹکا دیئے گئے کہ وہ اس شخص سے معافی مانگنے یا معاملات کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جو ان سے ذلیل ہونے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرتا تھا۔


پاکستانی بیورو کریسی اور سیاست کو بے عزتی کے احساس میں مبتلا کرنے کے لئے بھٹو کے بعد سب سے اہم کردار جناب شہبازشریف نے ادا کیا۔ انہوں نے افسروں کو سرعام ذلیل کیا۔ ان کو ہتھکڑیاں لگوائیں۔ جیلوں میں بند کیا اور ہر افسر کے سر پر یہ تلوار لٹکا دی کہ اس کے ساتھ کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف نے اس حکمت عملی کے ذریعے بے شمار ترقیاتی منصوبے بھی مکمل کئے۔ ان کے دل میں غریبوں کے لئے ہمدردی بھی تھی۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھٹو کی مقبولیت سے متاثر بھی تھے اور نیا بھٹو بننا چاہتے تھے۔ مگر انہوں نے بیورو کریسی میں ”عزت“ کی اہمیت کو بالکل ختم کر دیا۔ انگریزوں نے بیورو کریسی، پولیس اور فوج سے وابستہ افراد کو عزت دی تھی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں خطابات، اعزاز اور زرعی زمینیں دی تھیں۔ اپنے انتہائی قابل افسروں کے نام پر انہوں نے شہروں کے نام رکھے تھے۔ مگر بھٹو اور شہبازشریف نے اپنے  مقاصد کے لئے افسروں اور اہلکاروں کو ذلیل کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ جناب بھٹو اور شہباز شریف اپنے ادوارحکومت میں اپنے آپ کو ملک کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ یہ ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا مگر اپنے دور زوال میں انہیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگ ان کے خلاف کیوں ہیں۔ انہوں نے سر سیسل والش کے یہ الفاظ نہیں پڑھے ہوں گے کہ جنہیں آپ بے عزت کرتے ہیں وہ نہ تو اسے بھولتے اور نہ اس کا سبب بننے والے افراد کو معاف کرتے ہیں۔ 


پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔ اہل افراد بھی بڑی تعداد میں دستیاب ہیں۔ مگر اعلی سطح پر بصیرت کا انتہائی فقدان ہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں اور نوکر شاہی میں عزت کے لئے کام کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر اسے قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ کام کیسے ہونا چاہیے؟ اس کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے۔ مگر اہل اقتدار کو مسائل کے ہجوم نے اتنا گھیر رکھا ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ پاکستان کو واضح سوچ اور مقصد کے بغیر اس سے زیادہ بہتر نہیں چلایا جا سکتا جیسے یہ چل رہا ہے۔ آپ کو اس سوچ کے ساتھ اپنے رِسک پر اختلاف کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

مزید :

رائے -کالم -