جمہوری نظام سے ملک ترقی کرے گا
اکتوبر یا نومبر 2023 ءمیں پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی نوید سننے میں آرہی ہے اس معرکہ آرائی میں یہاں موجود کئی بڑی اور چھوٹی سیاسی اور دینی جماعتیں باہمی اتحاد کر کے یا الگ رہ کر میدان میں اترنے کے اعلانات کر رہی ہیں۔ انتخابی عمل، جمہوری نظام حکومت کو فروغ دینے کا انداز کار ہے جو کئی بیرونی ممالک میں زیادہ تر باقاعدگی اور پر امن دیکھنے میں آتا ہے لیکن وطن عزیز میں اس نظام کے تسلسل میں کچھ غیر جمہوری اور مفاد پرست عناصر کی غیر آئینی حرکات کی وجہ سے غیر متوقع طور پر رکاوٹیں وقوع پذیر ہونے کا جاری ہے۔ جس کی بنا پر جمہوری اقدار کی روانی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس سیاسی کج روی کو وطن عزیز میں وارد ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس آئینی غلط کاری کے شائق حضرات متعلقہ امور کی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود اس مہم جوئی میں گاہے بگاہے کودنے سے گریز نہیں کرتے ملکی وقار اور معیشت کی ترقی کے لحاظ سے غیر جمہوری روش بہت افسوس ناک اور خطر ناک ہے۔ چھ دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران ایسی آمرانہ یا جارحانہ کاروائیوں سے، ملک کی سیاسی جمہوری اور معاشی تعمیرو ترقی کو خاصی حدتک پسماندگی اور تباہی سے دو چار کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کی اکثریتی انسانی آبادی کے مسائل کم ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سیاست دان حضرات سے بھی گزارش اور توقع ہے کہ وہ حصول اقتدار کے لئے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آئین و قانون کے تحت حریفوں کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کریں۔
سیاست کاری میں غیر جمہوری افراد کی بیساکھیوں کی مدد حاصل کرنے کی روش اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ، ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے اشد ضروری تقاضا ہے۔ اس مثبت اصول کو عملی زندگی میں اپنانے میں کوئی تاخیر اور تذبذب نہ کیا جائے۔ یاد رہے جب جمہوری نظام ریاست کو اپنے آئینی اور مقررہ قانونی راستے سے ہٹا دیا جائے تو پھر غیر جمہوری عناصر کو اقتدار کے ایوانوں میں مداخلت کا ناجائر اور چور راستہ فراہم کرنا، سیاسی نظام کی ناکامی اور اہل سیاست کی نا اہلی اور نالائقی ظاہر کرتا ہے۔اس بڑی سیاسی غلطی (Blunder) پر متعلقہ افراد کو اپنی حماقت کے اعادہ پر نادم اورشرمسار ہوکر اس طبع آزمائی کا تسلسل ، جلد ترک کر دینا چاہیے تاکہ ملکی سیاسی اور معاشی استحکام کے حصول میں مزید تاخیر اور خرابیوں کا سد باب کیا جا سکے۔
انتخابی مہم اب کم و بیش ملک بھر میں شروع ہوگئی ہے۔ اس میں تقریروں کے دوران ایک ا چھے، مہذب اور شائستہ ملک کے آداب و اطوار کی جھلک زیادہ تر ہمارے رہنماو¿ں اور امیدواروں کے عوامی خطابات میں نمایاں نظر آنی چاہیے۔ سیاسی حریف پر روایتی انداز سے کیچڑ اچھالنا۔ ان پر بلا جواز الزام تراشی کرنا ،ان کو محض مقابل امیدوار ہونے کی بنا پر ناروا طور پر کردار کشی کا ہدف بنانا سراسر منفی اور انتقامی نوعیت کے حربے ہیں۔ حصول اقتدار کی دوڑ میں آئین و قانون کو کسی صورت پس پشت نہیں ڈالنا چاہئے۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہر امیدوار کی سیاسی کارکردگی متعلقہ حلقہ کے لوگوں کے سامنے ہوتی ہے۔ اس کے خلاف جان بوجھ کر پراپیگنڈا کرنا اور جھوٹے واقعات اختراع کرکے مخالفانہ ماحول تیار کر کے اس کی شہرت کو داغ دار کرنا ، سراسر نا جائز اورشیطانی حربے ہیں۔ ایسا کرنے والے افراد انسان کے معیار سے گرنے والی حرکات سے باز رہیں تو بہتر ہے تاکہ ووٹر حضرات و خواتین کو اپنی پسند اور آزاد رائے کے مطابق امیدوار منتخب کرنے کا موقع مل سکے۔
ووٹروں سے قبل ازیں شناختی کارڈ لے کر جمع کر لینا بھی دھاندلی کی دیرینہ غیر قانونی کارروائی ہے۔ اس سے ووٹ خریدنے کا تاثر لیا جاتا ہے۔ جمہوری اقدار کو آزادانہ طور پر آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹر مرد و خواتین کسی داﺅ اور بلیک میلنگ کے بغیر اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرنے کے لئے اپنی آزاد مرضی سے ووٹ بیلٹ باکسز میں ڈالیں۔ ووٹنگ وقت ختم ہونے پر امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی درست انداز سے کی جائے اور اعلیٰ متعلقہ حکام یا ریٹرننگ افسرا ور الیکشن کمیشن کو ارسال کی جائے۔ اس ضمن میں کسی بد دیانتی اور ہیرا پھیری کے امکانات کا فوری اور سختی سے تدارک کیا جائے۔
سیاسی سرگرمیوں کو پر امن حالات کے فروغ اور خوشگوار ماحول کی ترویج کے لئے استعمال کیا جائے خلوص نیت اور ملکی مفاد کو تقویت دینے پر توجہ مرکوز کی جائے عام لوگوں کو سیاسی سرگرمیوں میں مثبت فکر و عمل سے حصہ لینے پر مائل اور راغب کیا جائے۔ سیاسی مقابلہ بازی کو ذاتی اور جانی دشمنی سے ہرگز تعبیر نہ کیا جائے بلکہ کسی غیرقانونی حرکت اور ناجائز روش کے بغیر کامیاب امیدواروں کو کھلے دل سے منتخب تسلیم کر کے انہیں مبارک باد دے کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد و تعاون فراہم کیا جائے۔ ایسا کرنے سے ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمارے ملک کے بیشتر لوگ غریب اور پسماندہ ہیں ان کی مشکلات کم کرنے میں منتخب نمائندوں کو خصوصی کردار ادا کرنا چاہئے۔