’پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے‘ (1)

فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ لفظ کی تخلیق و ترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے مگر زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب یہ قدرتِ کلام جواب دے جاتی ہے۔ فیض نے یہ اعتراف لینن امن انعام وصول کرتے ہوئے کیا، البتہ ساتھ ہی اپنی تقریر کا اردو متن پڑھ کر سُنا دیا جو اُن کے مجموعی تصورِ حیات ہی نہیں، نظریہء فن کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ مَیں فیض احمد فیض نہیں، لیکن تیز تیز خبریں لکھنے کے عادی اِس رپورٹر کو آج عجزِ بیاں کا ویسا ہی مرحلہ درپیش ہے۔ دراصل اخباری اطلاعات (اگر آپ نے پیسے نہ پکڑے ہوئے ہوں تو) معروضی حقائق کا فوری بیانیہ ہوا کرتی ہیں۔ یہاں فرق یہ کہ ایک بدیہی حقیقت کو دلی طور پر سچ ماننے میں رپورٹر کو چار سال لگے ہیں۔ بدیہی حقیقت یہ کہ زندگی کی ہنگامہ آرائی میں صبح و شام کا ساتھی اور فیض والے ایم اے او کالج کو پھر سے باوقار درسگاہ میں بدل دینے والا پرنسپل طاہر یوسف بخاری اب واقعی ہم میں نہیں رہا۔
ابتدائی اشارہ تو اُسی رات مِل گیا تھا جب کوویڈ کے غمناک موسم میں اپنے یہاں سے ایک کلومیٹر دور بخاری کے گھر اوکسیجن سلنڈر منتقل کرنے کی میری کوشش ایک سے دوسرے اور پھر دوسرے سے تیسرے اسپتال تک ایک نامعلوم منزل کا سفر بن گئی۔ اوپر سے موقع پر موجود خاندان کے واحد مرد دوست کی بے بسی کہ یاالہی، اگر اپنے پیوند زدہ دل کے ساتھ مریض کو چھو لیا تو پتا نہیں کیا ہو، کہِیں ہم ایک سے دو نہ ہو جائیں۔ جبلی ہمدردی، دُکھ سُکھ کی اٹوٹ سانجھ، انفرادی حسِ بقا اور گرتی ہوئی سیچوریشن۔۔۔ تذبذب کے عالم میں وہ صبح یاد آئی جب یومیہ سیر کے دوران پولیس ایس یو وی کی ٹکر سہہ کر ہم دونوں سروسز انسٹی ٹیوٹ لائے گئے تھے۔ تب برین ہیمرج سے ہوش میں آتے ہی مَیں نے پولیس انسپکٹر کی زبان سے پہلا جملہ یہی سُنا: ”بخاری صاحب اپنے سے زیادہ آپ کے بارے میں فکر مند تھے“۔۔۔ قاریِ محترم، ذرا ٹھہر ئیے، دم لے کر آگے چلتا ہوں۔
یہ بات تو بتا چکا کہ ایک سیدھی سادی طبعی حقیقت کو تسلیم کرنے میں چار سال لگے ہیں۔ شاید میری بے بسی کا احساس شدید شرمساری میں ڈھل گیا تھا۔ اِس لیے کہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے اچھے حالات میں وضعداری کے تقاضوں کو نبھا لینا ایک چیز ہے مگر یہ نفسیاتی اعتماد ایک اور کہانی کہ آپ کو جب بھی ضرورت پڑی، دوست نے خالی جگہوں کی لکنت پوری کر دی۔ ”بخاری صاحب، ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم ٹیچنگ کا کام مل رہا ہے، کیا کروں؟“ ”میرا خیال ہے کر لیں۔“ ”بخاری صاحب، آج ایک غیر ملکی مہمان کچھ دیر میں چائے پر آنے والا ہے۔ وزنی شخصیت ہے، مجھ اکیلے سے سنبھالی نہیں جائے گی۔“ ”ملک صاحب، فکر نہ کریں، ابھی آتا ہوں۔“ کبھی کبھی بیگم صاحبہ بھی اچانک فون کر دیتیں ”بخاری بھائی، چاول ختم ہورہے ہیں۔“ ”بھابھی جی، اگلے ہفتے پہنچ جائیں گے۔“ جواب اثبات میں اور منٹو کی نقالی کروں تو ہمیشہ خوش دلی کی ’گٹک‘ لیے ہوئے۔ وہ بھی الفاظ میں کم، لہجے میں زیادہ۔
اِسی لیے تو جی چاہ رہا ہے کہ مکتوب الیہ کی کسی تدریسی یا دفتری مصروفیت کی پرواہ کیے بغیر آج پھر نمبر گھما دوں۔ دو گھنٹیاں بجنے پر آواز آئے گی ”جی ملک صاحب۔“ آواز میں تکبر ہے نہ جدید بناوٹی عاجزی۔ سب سے بڑھ کر ’ملک‘ میں ل کو زیر و زبر کیے بغیر جذم سے بولنے کی پنجابی عادت جو اپنائیت کا احساس دلاتی ہے۔ مَیں کہوں گا ”یار بخاری، آپ پہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں، پر خیالات کا اتنا ہجوم ہے کہ ای ایم فورسٹر والی اسٹوری کی ڈیفی نیشن سے کام نہیں چل رہا۔“ ”مَیں سمجھا نہیں، ملک صاحب“ (ل پھر حرکت کے بغیر)۔ ”یار، دیکھیں نا، ناول تو اُن واقعات کا بیان ہوتا ہے جنہیں ہم زمانی ترتیب سے پیش کریں۔ آپ کا پروفائل بھی ہے تو واقعات ہی کا تسلسل، لیکن کہانی انجام سے شروع کر دی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس سے آگے کیا لکھوں۔“ اب باقاعدہ قہقہہ لگے گا:”ملک صاحب، جو یاد آئے لکھتے جائیں، تسلسل خود بخود بن جائے گا۔“
تو جناب، اب تسلی ہو گئی ہے اور حافظے کے البم میں اولین تصویر کا منظر نامہ مال روڈ کے وائی ایم سی اے ہاسٹل میں کھُل رہا ہے۔ 1978ء کی ایک معتدل شام ہے اور شیخوپورہ والے قیصرذوالفقار بھٹی ایک ہم عصر کو ساتھ لیے کمرہ نمبر سات میں داخل ہوئے ہیں۔ پولیٹکل سائنس کے سٹوڈنٹ قیصر ذوالفقار سے ملاقات آج ہی گورنمنٹ کالج میں شعبہء انگریزی کے ہمکار عمر فارق نے اپنے پروفیسرز روم میں کرائی تھی جہاں چائے کی پیالی پہلی نظر میں تاحیات ربط کا پیش خیمہ بن گئی۔ اب یاروں کا یار بھٹی ایم اے انگلش کے طالب علم طاہر یوسف بخاری کو گھیر لایا ہے، یہ کہہ کر کہ آؤ، ایک مزیدار آدمی سے ملوا لائیں جو تمہارے ہی ڈیپارٹمنٹ میں انٹر میڈیٹ اور بی ایس سی کو پڑھاتا ہے۔ یہاں بھی ٹی ہاؤس سے منگوائی گئی چائے ہے تو صبح کا ایکشن ری پلے۔ پر مشاعرے کی اصطلاح میں وہ تو تحت اللفظ ملاقات تھی۔ اب جو ’صحیح بخاری‘ نے رنگ جمایا تو میرے مولا، چند منٹوں میں وائی ایم سی اے کی چھت قہقہوں کے زور سے پھٹی جا رہی ہے۔
قہقہوں کا یہ تسلسل، جسے طاہر یوسف بخاری کا انتخابی نشان سمجھا گیا، ہمارے تعلق کا فطری سلسلہ بنا۔ پھر بھی اُن دنوں منتخبہ حکومت کو محروم اقتدار کیے جانے کے اقدام اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے تناظر میں پاکستانی معاشرہ جن نئی صف آرائیوں کا شکار ہوا اُس کی بنا پر ذاتی دوستیوں میں بھی جمہوری اور جمہوریت دشمن سوچ کا فرق ایک واضح حدِ فاصل تھی۔ ماضی کے گورنمنٹ کالج (موجودہ جی سی یو) میں پوسٹ گریجوایٹ طالب علم کا رُتبہ نوزائیدہ لیکچرر سے کچھ ہی کم ہوا کرتا۔ چنانچہ عمر میں تین، چار سالہ فرق کے باوجود، بھٹی، بخاری اور شاہد ملک کی تکون اگر یکدم دو قائمہ زاویوں کے برابر ہو گئی تو اِس مضبوطی کا ایک امکانی وسیلہ یہ خوش گمانی بھی تھی کہ ہمارا جھکاؤ طولِ اقتدار کی خاطر دین کا غبارہ پھُلانے والوں کی بجائے بائیں بازو کی طرف ہے۔ باقی دو کی طرح مَیں بھی شدت سے سوچا کرتا (اور اب بھی سوچتا ہوں) کہ کاش دنیا بھر کے مزدو ر اور کسان اپنے اپنے چمنستانوں کے والی بن جائیں۔
تب وطنِ عزیز روس مخالف افغان مزاحمتی سپاہ کو دھڑا دھڑ ا مجاہد ین میں ڈھالنے کی ٹکسال نہیں بنا تھا لیکن تعلیم و تدریس کو ناپسندیدہ عناصر سے پاک کرنے کی خاطر محکمانہ تطہیر شروع ہو چکی تھی۔ ہر دوسرے روز لاہور کے ہمکار اساتذہ دور دراز علاقوں میں تعیناتی کے آرڈر لیے وائی ایم سی اے آ دھمکتے اور تحریری احتجاج ٹائپ کرنے کے لیے میری پورٹیبل ریمنگٹن کھڑکنے لگتی۔ اِس قلمی ہاتھا پائی میں ترقی پسند دانشور اور جی سی (یو) میں میرے سینئر ضیا ڈار کے علاوہ جن راوین طلبہ کی امداد شامل رہی اُن میں انتظار مہدی، قیصر ذوالفقار بھٹی اور میرے ممدوح طاہر یوسف بخاری سرِ فہرست ہیں۔ احمد فراز کی متنازعہ نعت پہ سرکاری منصب سے اُن کی برطرفی پر سر فضل حسین ریڈنگ روم میں مرحوم شاعر کے ساتھ بلااجازت شام منانے کی ہمت کِس نے کی؟ اور بخاری صاحب اردو کے باغی استاد علی ظہیر منہاس اور ’انقلابی‘ اسٹوڈنٹ لیڈر شاہد محمود بھٹی کے ساتھ کیوں کھڑے ہو گئے؟ یہ روداد اگلی قسط میں، فی الوقت اُسی زمانے کی کا ایک شعری ٹریلر:
سالہا سال سیاہی کا سفر
پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے
(جاری ہے)