کم ڈبے لگانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم کی لمبائی کم ہوتی ہے،پاکستان میں سب سے لمبا پلیٹ فارم روہڑی سندھ کا ہے

کم ڈبے لگانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم کی لمبائی کم ہوتی ...
کم ڈبے لگانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم کی لمبائی کم ہوتی ہے،پاکستان میں سب سے لمبا پلیٹ فارم روہڑی سندھ کا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:76
کم ڈبے لگانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم کی لمبائی کم ہوتی ہے۔ یہ اگر چھوٹا ہو گا اور گاڑی لمبی ہو تو اس کا کچھ حصہ تو پلیٹ فارم کے باہر ہی رہ جائے گا جس سے مسافروں کو اترنے چڑھنے میں دقت ہو گی۔ کچھ بڑے اسٹیشنوں پر طویل پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے لمبی گاڑی وہاں رک جاتی ہے۔ پاکستان میں سب سے لمبا پلیٹ فارم روہڑی سندھ کا ہے جو 1900 فٹ کاہے یعنی آدھا کلومیٹر سے بھی کچھ لمبا۔
تیسری وجہ،پاکستان میں طاقتورانجنوں کی بے حد کمی ہے جس کی وجہ سے پْرانے اور ہلکے انجنوں کو چھوٹی گاڑیوں کی ساتھ بھیجاجاتا ہے۔ایک اور وجہ بھی ہے کہ اگر ریلوے لائن کے راستے میں موڑ آتے ہیں تو وہاں بھی رفتار کم رکھی جاتی ہے۔ کیوں کہ ایک نسبتاً زیادہ چھوٹے موڑ والی پٹری پر طویل گاڑی چلانے سے اس کے پٹری سے اترنے کا خطرہ رہتا ہے۔آسٹریلیا میں ایک دفعہ تجرباتی طور پر کئی طاقتور انجنوں کی مدد سے50سے زیادہ مسافر بوگیوں والی تیز رفتار گاڑی بھی چلائی گئی تھی۔ مگر وہ لائن ایسی ہے جو ہزاروں کلومیٹر تک خط مستقیم میں چلتی ہے اور اس کے راستے میں کوئی موڑ بھی نہیں آتا۔ اس لیے ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ہندوستان کے محکمہ ریلوے والے ایک مسافر گاڑی کی ساتھ زیادہ سے زیادہ 25بوگیاں لگاتے ہیں اور اس کا انحصار بھی پٹری کی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔
جن علاقوں میں پٹریوں کی گریڈئینٹ یعنی چڑھائی کی حد زیادہ ہوتی ہے وہاں بھی گاڑی میں ڈبوں کی تعداد مختصر رکھی جاتی ہے، جیسے کہ کوئٹہ جانے والی گاڑیاں جو وادی بولان سے گزرتی ہیں، ان میں مسافروں کیلیے بوگیوں کی تعداد 9تک محدود کر دی گئی ہے، پھربھی اس کو رواں رکھنے کی لیے دو انجن درکار ہوتے ہیں جن میں سے ایک مرکزی انجن اور ایک عقب میں لگا ہوا بینکر (Banker) انجن ہوتا ہے۔ تاہم اگر گاڑی میں اس سے 1 یا 2بوگیاں بھی زیادہ ہو جائیں تو گاڑی کو کھینچنے کے لیے 3 انجن درکار ہوں گے۔برانچ لائنوں پر چلنے والی گاڑیوں میں ڈبوں کی تعداد متعین نہیں ہوتی، وہ ضرورت کے مطابق بڑھائی یا گھٹائی جا سکتی ہے۔ عموماً ایسی گاڑیوں میں 3 اور 10کے درمیان ڈبے لگے ہوتے ہیں۔
باب7
مال گاڑیاں 
مال کی ایک شہر سے دوسرے شہر کو ترسیل کے لیے وصول کی جانے والی رقم محکمہ ریلوے کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ماخذ ہوتی ہے۔ ریل کے ذریعے نہ صرف اندرونِ ملک بھیجا جانے والا سامان دوسرے شہروں میں پہنچایا جاتا ہے بلکہ کراچی کی بندر گاہوں پر اتارا جانے والا جو سامان اندرون پاکستان بھیجنا ہو یا وہاں سے یہاں پہنچانا ہو تو اس کے لیے بھی ریلوے ہی استعمال ہوتی ہے، کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف تیزی بلکہ حفاظت کی ساتھ یہ سامان منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو پاکستان ریلوے کی مال گاڑیوں کے بارے یہ بات صحیح تھی لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیں ہے۔مال گاڑی بھی مسافر گاڑی ہی طرح بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ مسافر گاڑیوں سے کہیں زیادہ منافع بخش ثابت ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -