پاکستان کی پریشان روح
پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ اور حالات پاکستان کو کس بڑی دلدل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اِس پربہت سے لوگ سوچ ہی نہیں رہے ہیں بلکہ اس صورت حال کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی راہنماؤں کے پاس مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ انہیں اقتدار دے دیا جائے۔ مسلم لیگ ن طویل عرصہ اقتدار میں رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف بھی اقتدار میں رہی ہے بلکہ اب بھی صوبوں میں اقتدار میں ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری ان پارٹیوں پر بھی عائد ہوتی ہے مگر ہمارے سیاسی کلچر میں ذمہ داری قبول کرنے کی روایت نہیں ہے تاہم الزامات کی سیاست اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہر خبر دیتے ہیں مگر ان میں سچ تلاش کرنا جنگل میں گمشدہ سوئی کو تلاش کرنے جیسا مشکل کام ہے۔ عمران خان ملک کی تباہی سے ڈراتے ہوئے فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت وہ اپنے آپ کو مقبولیت کی انتہاء پر دیکھ رہے ہیں میاں شہباز شریف فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے عمران خان سے الیکشن پر مذاکرات ہی کو مسترد کر دیا ہے اور کھل کر کہا ہے کہ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کرانے کے لئے سیاست کو داؤ پر نہیں لگایا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ برسر اقتدار آنے سے پہلے وہ مقبولیت کی اس چوٹی پر کھڑے تھے جس پر قبضے کا اب عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاست تقسیم ہو چکی ہے حکومت میں ہونے کا مطلب ہے کہ آپ محفوظ ہیں اور اپنے مخالفین کو عذاب میں مبتلا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر آپ اپوزیشن میں ہیں تو آپ کو کڑی آزمائش سے گزرنا ہے، حکومتی ادارے آپ کو اپنے خلاف کھڑے ہی نہیں بلکہ سخت کارروائیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اُن سپاہیوں کی طرح ہیں جو مخالف مورچوں میں بیٹھے ہیں، وہ کچھ نہیں جانتے صرف یہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے سامنے والے کو نہ مارا تو وہ مجھے مار دے گا۔ سیاسی پارٹیوں کی سوچ بھی کچھ ایسی ہی نظر آ رہی ہے وہ اس وہم یا یقین میں مبتلا ہیں کہ اگر مخالف پارٹی اقتدار میں آگئی تو پھر وہ اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لے گی۔ یوں سیاسی جدوجہد بقاء کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ میڈیا کا غالب حصہ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا آلہ کار ہے۔ ن لیگ کے حامی صحافیوں کو پی ٹی آئی میں کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی اور پی ٹی آئی کے حامی صحافی ن لیگ میں کسی خوبی کو دیکھنے سے انکار کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے معاملہ یہاں تک بھی محدود نہیں ہے۔ ہر روز سیاسی پارٹیوں کے حامی صحافی جھوٹ کے شاہکار تخلیق کرتے ہیں، میڈیا میں ہنگامہ بپا کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدانوں کو یہ یقین ہے کہ وہ انصاف حاصل نہیں کر سکتے اور یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ اگر کوئی پاکستانی چینل لندن میں خبر نشر یا شائع کرتا ہے تو انصاف کے لئے برطانوی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ شکایت کی جاتی ہے کہ وطن عزیز میں معاملہ انصاف کی تاخیر تک محدود نہیں ہے بلکہ انصاف ہوتا ہی نہیں ہے۔ صدر کے اسمبلیاں توڑنے کے آئینی اختیار کے ختم ہونے کے بعد اب یہ کام عدالتوں سے لیا جا رہا ہے اور عدالتیں سخت دباؤ میں کام کرتی ہیں اُنہوں نے ثبوت اور گواہان کی بنیاد پر کام کرنا ہوتا ہے اور اُن کا اختیار یا کنٹرول بہر حال حکومت کے پاس ہوتا ہے یوں عدالتوں کے انصاف فراہمی کے کام میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں مگر یہ سیاسی گند عدالتوں کے امیج کو بھی متاثر کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
پاکستان کا کوئی سیاسی لیڈر پاکستان کی خاطر اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہاں حکومت الیکشن پر مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہاں عمران خان اِسی ماہ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے حامی کچھ بھی کہیں مگر دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ سیاسی راہنما خودغرضی ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
ایک ہی بچے پر دو عورتوں کے دعوے پر جب یہ فیصلہ دیا گیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے سپرد کر دیئے جائیں تو حقیقی ماں نے روتے ہوئے بچے کو دوسری عورت کے سپرد کرنے کا اعلان کیا اور اپنے حق سے دستبردار ہو گئی مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ 1971ء میں بھی ملک کے دو ٹکڑے کر الئے گئے تھے کیونکہ سیاسی راہنماؤں کے نزدیک اپنے سیاسی مفادات پاکستان سے اہم تھے۔
اب صورت حال زیادہ خاصی گھمبیر ہو چکی ہے میڈیا نے عوام کو کنفیوژ کر دیا ہے، اُن کے لئے درست فیصلہ کرنا نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ اب وہ واقعات کو اپنی پارٹی کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، ان کو بھی پاکستان کی بجائے صرف اور صرف اپنے لیڈر کو دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے اور وہ اسی یقین میں مبتلا ہیں کہ ان کا لیڈر برسر اقتدار آکر مسائل کو حل کر دے گا۔
کیا آپ دیانتداری سے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی سیاستدان برطانیہ کی سابق وزیر اعظم لزٹرس جیسا بے لوث ہے جس نے چھ ہفتے کے بعد برطانیہ کی وزارت عظمیٰ چھوڑ دی کیونکہ اس نے دیانت داری سے محسوس کیا تھا کہ وہ برطانیہ کے وہ سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جس کے لئے اسے یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ اس نے نہ تو ہارس ٹریڈنگ کی نہ کرپشن کا بازار گرم کیا نہ عدالتی کارروائیوں کے ذریعے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ بڑے وقار کے ساتھ آئیں اور استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا،وہ استعفیٰ دے کر برطانیہ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کر گئیں آپ دل پر ہاتھ رکھ کر دیانت داری سے بتائیں کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر ہے جو ایسا سوچنے کی جرات بھی کر سکتا ہے؟
دنیا میں قومیں کردار سے عظیم بنتی ہیں اور اس میں لیڈروں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں بے لوث لیڈر کی ڈیمانڈ ہی ختم ہو چکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی دانشور اور محقق وینکٹ ڈولیپولا کی کتاب "Creating a New Medina" منظر عام پر آئی تھی جس میں اُس نے لکھا تھا کہ برطانیہ کی ایک لائبریری میں تحقیق کرتے کرتے قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات میں انہیں ایک سکرپٹ ملا،جو 13 مارچ 1955ء کو قائد اعظم کی روح سے ہونے والی ملاقات سے متعلق تھا۔ لوگ لندن جاتے رہتے ہیں مگر کسی پاکستانی نے اس سکرپٹ کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بھارتی مصنف کے بقول قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی روح سے جب پاکستان کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: ”بے لوث قیادت سے محرومی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے“۔
پاکستان کے مسائل کے متعلق قائداعظم کی روح کے حوالے سے ہونے والی اس تشخیص سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں بے لوث قیادت موجود نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ عوام کسی دوسری طرف دیکھیں کیونکہ امریکی صدر روز ویلٹ نے کہا تھا کہ اگر جمہوریت ناکام ہو جائے تو عوام دوسرے آپشن تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر پاکستان جس طرح بحرانوں کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ دھکیلا جا رہا ہے لیکن اُس سب کے باوجود ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی سیاسی لیڈر اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دے کر پاکستان کو بچانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اپنی نا اہلیت ثابت کرنے والے سیاسی رہنما ضد کر رہے ہیں کہ اُن کا اقتدار ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے مایوسی اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب میں ایک برطانوی دانشور کی برطانوی آئین کے متعلق تحریر پر غور کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ لوگ برطانیہ میں جمہوریت کے استحکام کا کریڈٹ برطانوی اداروں کو دیتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل کریڈٹ برطانوی عوام میں موجود آزادی کی روح کو جاتا ہے جو آمریت کی کسی صورت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اگر اداروں کو ختم بھی کر دیا جائے تو برطانوی عوام کی جمہوری روح جمہوری اداروں کو دوبارہ قائم کر دے گی۔
پاکستان میں عوام کی ر وح کو کنفیوژ کرنے کے لئے سیاستدانوں اور میڈیا نے بڑی طویل جدوجہد کی ہے اور اب ہر پارٹی کو اپنے اقتدار میں پاکستان کا استحکام نظر آتا ہے مگر پاکستان کی پریشان روح سوال کر رہی ہے کہ اس کا کیا مستقبل ہوگا۔