شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 41
گاؤں کے لوگ بھی اتنے بے غیرت اور سنگدل نہیں تھے کہ ایک عورت کی فریاد سن کر بھی گھروں میں گھسے رہتے۔۔لوگ دھڑ دھڑ جلتی مشعلیں اور تلواریں لیے نکل آئے۔دو تین جگہ پھوس ڈھیر کر کے اس میں آگ لگا دی۔پھر وہ لوگ شور کرتے اور ڈھول پیٹتے ادھر چلے جدھر عبداللہ کی چیخ سنائی دی تھی۔جبوہ چوپال کی طرف بڑھے تو شیر نے دہاڑکر ان کو خبر دار کیا۔لیکن ایک شخص نے جلی ہوئی چوپال کے چھپر پھینکی اور چشم زدن میں چھپر میں سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔شیر غرا تا ہوا ،دم دبائے چوپال سے نکل کر بھاگ گیا اور ان لوگوں نے عبداللہ کی لاش پر قبضہ کرلیا،جس کے کولھوں اور پشت کا گوشت شیر نے صاف کردیا تھا۔اُدھرعبداللہ کی بیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ راہی عدم ہوگئی تھی اور اس کا نوزائیدہ بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔۔۔۔
گاؤں کی ایک رحم دل عورت نے جس کا خود بھی ایک شیر خوار بچہ تھا،عبداللہ کے بد قسمت بچے کی پرورش کا ذمہ لیااور بعد میں میری سفارش پر نواب صاحب نے اس بچے کے لیے تاسنِ بلوغ دس روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کردیا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں شہر سے روانہ ہوکر راستے میں صرف فجر کی نماز کے لیے ٹھہرا اور پھر آگے چل پڑا۔نو بجے ہم لوگ ڈوب پہنچے ۔۔
میرا ارادہ تو یہ تھا کہ اسی روز کھنڈر کی طرف روانہ ہوجاؤں لیکن گاؤں کے لوگوں نے جب بتایا کہ شیر تمام را ت گاؤں میں گشت کرتا رہتا ہے تو میں نے ارادہ بدل دیا۔
ہم لوگ دوپہر کے کھانے کے بعد گاؤں کی گلیوں ،اطراف کے کھیتوں اور راستوں پر گھومتے حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ہر طرف شیر کے ماگھ نظر آئے ۔پرانے بھی اور تازہ بھی ۔رات کوشیر نے چوپال میں بیٹھ کر ایک جنگلی بکری کھائی تھی۔وہ جگہ بھی دیکھی ۔
جلے ہوئے چھپر کی بابت دریافت کرنے پر عبداللہ کی موت کا قصہ معلوم ہوا۔ اگرچہ اس واقعے کو کئی ماہ گزر چکے تھے،لیکن چوپال درست کرنے کی نہ ضرورت تھی نہ کسی کو خیال ہوا۔اندھیرا ہوجانے کے بعد کوئی گھر کا دروازہ تو کھول سکتا نہیں تھا ۔چوپال میں بیٹھ کر خود کشی کون کرتا۔
ظہر کے بعد سے عصر تک ہم سب گہری نیند سوتے رہے ۔بلکہ میں تو عصر کی نماز کے بعد پھر سو گیا۔میری عادت ہے اور اچھی ہی عادت ہے کہ جس وقت ،جہاں چاہوں،ذرا دیر آ نکھیں بند کرکے گہری نیند سوجاتا ہوں ۔
بہرحال اتنی دیر سو لینے کے بعد میرے دوست عسکری نے مغرب کی نماز کے لیے مجھے جگایا تو سارے گاؤں میں سناٹا ہوچکا تھا۔۔۔تمام گھروں کے دروازے بند تھے اور کسی گھر میں روشنی بھی نہ تھی۔۔۔عسکری مسلح ہوچکے تھے اور دوسرے دونوں احباب بھی رائفل اور کار توسوں کی پڑتال کر رہے تھے۔
میں نے اطمینان سے مغرب کی نماز پڑھی ۔پھر اٹھ کر لباس تبدیل کیا۔بریچز پہن کر گھٹنوں تک کے اسنیک پروف جوتے چڑھائے ۔گرم قمیض پر پوری آستین کا سویٹر پہن کر اس پر شکاری گرم کوٹ پہنا ۔ پانچ بیٹریوں کی ٹارچ کوٹ کی جیب میں رکھ کر اس کی دم مضبوط دھاگے کے ایک سرے سے باندھی اور دوسرے سرے کو کوٹ کے کاج میں باندھ دیا۔اس کے بعد کارتوسوں کے دوڈبے جیب میں رکھے ۔کالر کے نیچے پہلے ہی سولہ کارتوس لگے تھے پھر رائفل اٹھا کر گھوڑوں اور ٹریگرکا اچھی طرح جائزہ لیا۔دونئے کارتوس دونوں نالوں میں رکھ کر بریچ بند کیااورعسکری ،عتیق اور صغیر کو ساتھ لے کر باہر آگیا۔میرا ملازم دلاور میری زائد تھرٹی اسپرنگ فیلڈ اور بارہ بور کی بندوق لئے ساتھ تھا۔
عسکری اور عتیق کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ دونوں عقب سے ہوشیار رہیں ۔ہم لوگوں نے گاؤں سے نکل کر پہلے تو آبادی کے گردایک چکر لگایا۔پھر گاؤں کی مختلف جگہوں میں گھومتے رہے۔لیکن شیر نہیں ملا۔اس کے بعد ہم سیدھے نوشاہ کے گھر واپس آئے کیونکہ وہ گھرنالے کے عین مقابل اس جگہ پر تھاجہاں نالہ پار کرنے کا راستہ ہے میں نے بھی دیکھا اور گاؤں والوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ شیر کی آمدورفت کا راستہ وہی ہے۔وہ دن کھنڈر میں گزارنے کے بعد سر شام بالعموم اسی راستے سے گاؤں میں داخل ہوتا اور رات گاؤں میں بسر کرکے صبح کو اسی راستے سے واپس کھنڈر کی طرف چلا جاتا۔
واپس آکر ہم لوگوں نے اطمینان سے کھانا کھایا۔۔۔جس مقام ہم کھانا کھارہے تھے وہاں سے بیرونی دروازہ بالکل سامنے تھا اور وہ کھلا ہوا تھا۔میں ایسے زاویے سے بیٹھا تھا کہ دروازے پر مسلسل نظر رہے۔گاؤں والوں نے بتایا تھا کہ کھلے ہوئے دروازے کو دیکھ کر تو وہ فوراً گھس آتا ہے۔میں نے کھانا کھانے کے دوران رائفل بالکل اس طرح تیار رکھی تھی کہ فی الفور اٹھا کر فائر کر سکوں ۔لیکن شیر نہیں آیا بلکہ میں نے پیشین گوئی کی کہ شیر نہیں آئے گا،جس طرح بعض انسانوں کو آئندہ پیش آنے والے خطرے کا کسی قدر احساس ہوجاتا ہے،اس طرح جانوروں کو بھی یہ اسی قسم کی قوت و دیعت ہوئی ہے اور آدم خور شیروں میں یہ حس بہت تیز ہوتی ہے۔
کھانے کے بعد میں نے گھر کا دروازہ بند کردیا اور تمام لوگ ڈیوڑھی کی چھت پر چار پائیاں ڈلواکر بیٹھ گئے ۔یہاں سے نہ صرف نالہ اور اس کے پار کا کافی علاقہ بلکہ گاؤں کی دو ایک گلیوں کا منظر بھی نظر آتا تھا۔عسکری اور عتیق اسی جگہ چار پائیوں پر سو گئے میں اور دلاوربیدار رہے۔
دو بجے رات کو میں نے عسکری اور عتیق کو جگادیا اور خود آرام کرنے لیٹ گیا۔صبح فجر کی نماز کے لیے عسکری نے جگایا تو میری آنکھ کھلی۔وہ دن بھی ہم لوگوں نے گاؤں کی جنگل والی سمت تفتیش میں بسر کیا ۔عسکری نے ایک مور اور چیتل مارا ۔مور کا گوشت ہم نے اپنے لیے رکھا اور چیتل کا گوشت گاؤں کے پریشان حال لوگوں میں تقسیم کرادیا ۔ہماری گاؤں کی موجودگی کی وجہ سے ان لوگوں کی ذرا ہمت بندھی تھی اور خوف میں کچھ کمی آگئی تھی۔(جاری ہے )