شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 40
نومبر کے آخری دن تھے۔میں ایک تقریب میں مدعو تھا،جس میں نواب بھوپال بھی موجود تھے۔نواب صاحب نے گفتگو کے دوران میں مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’ تم نے اب تک ڈوب کے آدم خور کی خبر کی خبر نہیں لی؟‘‘
’’اعلٰی حضرت ! یہ ایک دفعہ کوشش کر چلے ہیں۔‘‘
ایک صاحب بولے۔غالباََ ان کے اظہار میں تضحیک کا پہلو تھا۔
’’اچھا۔!‘‘اعلٰی حضرت بدستور سنجیدہ تھے اور شاید ان کا دخل در معقولات انھیں ناگوار بھی ہوا۔
’’لیکن اس بھوت نے انھیں دبالیا اور یہ ڈیڑھ ماہ بیماررہے ہیں۔‘‘
اعلٰی حضرت ذرا میری طرف دیکھتے رہے۔پھر بولے۔
’’میر ا خیال ہے کہ تم نے سنجیدگی کے ساتھ اس کی ہلاکت کا اہتمام ابھی تک نہیں کیا۔۔‘‘
’’آپ کافرمانا بجا ہے۔۔‘‘
’’تمھاری ناکامی کا سبب۔۔؟‘‘نواب صاحب نے پوچھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے سارا ماجرامفصل کہہ سنایا۔نواب صاحب بہت توجہ کے ساتھ سنتے رہے اور جب میں نے تفصیل ختم کی تو فرمایا۔
’’یہ تو قطعاََ کوشش نہیں ہوئی۔میں نہ اس کو تمھاری کوشش سمجھتا ہوں ،نہ اس ناکامی کو ناکامی ‘‘
’’بجا فرمایا۔۔‘‘وہ صاحب اتنی ترش روئی ہی پر سر سے پیر تک کا نپ گئے۔
’’اب کب تک ارادہ ہے۔۔؟‘‘اعلٰی حضرت نے دریافت کیا۔
’’آئندہ ماہ تک۔۔‘‘میں نے جواب دیا۔
دسمبر کی دوسری تاریخ کی شام کو میں اپنے پائیں باغ میں تھا کہ یک ملازم نے اطلاع کی کہ محل سے ٹیلیفوں کا حال ہے۔
میں نے اندر آکر ٹیلیفون سے لگا رہا۔۔
’’ہلو۔۔۔‘‘
’’اعلٰی حضرت آپ سے بات کریں گے۔۔‘‘آواز آئی۔
اور پھر چند لمحوں بعد اعلٰی حضرت بولے:
’’بھئی !تم ڈوب کب جاؤ گے۔۔۔؟‘‘
’’چارچھ روز بعد۔۔‘‘
’’تم اپنی روانگی کی تاریخ مقرر کر لو تو پولیس کو اطلاع کر دینا تاکہ تم کو ہر قسم کی سہولت میسررہے۔۔میں نے افسر اعلٰی کوتاکید کر دی ہے۔۔‘‘
’’آپ کی عنایت کا شکریہ۔‘‘
اور آخر میں دس دسمبر کو صبح چار بجے اپنی جیپ پر تین احباب اور ایک وفادار ملازم کے ہمراہ ڈوب کے لیئے روانہ ہو گیا۔
ڈوب کی جو حالت تھی ،اس کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔دیہات کے جاہل لوگوں کو اس آدم خور میں خبیث روح ہونے کا یقین ہو گیا تو اس کے تدراک اور دفعیے کی کوئی تدبیر کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے کو تقدیر اور حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیا۔یہ لوگ مغرب سے قبل ہی فارغ ہو کر اپنے مویشیوں سمیت گھروں میں قلعہ بند ہوجاتے۔کیونکہ ادھر سورج غروب ہوا ادھر شیر نے گاؤں کی عنان حکومت سنبھالی۔وہ گاؤں کی گلیوں میں چکر لگاتااور مقفل دروازوں پر ٹکریں مار کر دہاڑتا اورغراتا رہا۔
گاؤں والوں کی دہشت اور افسردگی کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔۔ان غریبوں کی زندگی وبال بن گئی تھی۔کچھ لوگ جن کے اعزا دوسرے دیہات میں تھے ،وہ ترک وطن کر کے ان کے پاس چلے گئے تھے۔لیکن اب بھی ڈوب میں بہت سے ایسے بدقسمت لوگ تھے جو اس خبیث روح کی تاخت وتاراج کے باوجود اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ان کے کئی عزیز شیر کی خوراک بن چکے تھے اور باقی لوگوں کے سروں پر موت ہر وقت منڈلا رہی تھی۔اس قدر دہشت اور سر آئیگی کے عالم میں لوگوں کے کاروبار بڑ ی مشکل سے چل رہے تھے،نہ صحیح طریقے سے کاشت ہی ہوسکتی تھی نہ معقول طریقے سے کاروبار ہی چلتا تھا۔
سب سے زیادہ افسوس ناک واقعہ تو عبداللہ کا تھا۔اس کی بیوی کے بچہ ہونے والا تھا۔ایک دن۔۔آدھی رات گزجانے کے بعد۔۔اس کے دروازے پر دستک شروع ہوئی۔دروازے اندر سے مقفل تھے اور باہر گلیوں میں حسب معمول شیر گھوم رہا تھا۔کچھ فاصلے پر ایک گھر میں حسو چمارن رہتی تھی،جسے دائی کا کام بھی آتا تھا۔لیکن سوال یہ تھا کہ گھر سے نکل کر اسے بلانے کون جائے۔جب درد کی تکلیف زیادہ ہوئی تو عبداللہ پریشان ہوکر اْٹھا۔بیوی نے بہت منع کیا،لیکن آخر دائی کے بغیر کیسے کام چلتا۔
وہ کافی دیر دروازے کے پاس کھڑا شیر کی آہٹ سنتا رہا اور جب اچھی طرح یقین ہو گیا کہ شیر آس پاس نہیں ہے تو اس نے آہستہ آہستہ دروازہ کھولا۔ذراسی درز کر کے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی اور جب اطمینان ہو گیا کہ شیر نہیں ہے تو باہرنکلا۔اس کی کراہتی ہوئی بیوی نے دروازے کی زنجیر بند کر لی اور اپنے شوہرکی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شیر کے دہاڑنے اور عبداللہ کے چیخنے کی آواز نے اس کا دل ہلادیا۔۔اس کا سرتاج،اس کا مالک،اس کی مانگ کا سیندور ہلاک ہو رہا تھا۔۔وہ اپنی تکلیف بھول کر اْٹھی ،کلھاڑی اْٹھائی اور زنجیر کھول کر گھر سے باہر نکلی۔اس نے چیخ چیخ کر گاؤں والوں کو آوازیں دیں اور بتایا کہ عبداللہ کو شیر کھا رہا ہے۔اور اس کے بعدادھر دوڑی جدھر سے آواز آئی تھی،لیکن دو ہی قدم گئی تھی کہ درد کی شدت سے تڑ پ کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔(جاری ہے )