اقتدار کا تسلسل، بہتر کارکردگی میں مضمر
جمہوری سیاست میں حصہ لینے والے حضرات و خواتین جانتے ہیں کہ یہ اقتدار عارضی مدت پر محیط ہوتا ہے۔ کامیاب ہونے والے امیدوار دیگر لوگوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں جبکہ ان کی کچھ تعداد تو انتخابی عمل کی شرائط کی اہلیت پر پورا نہ اترنے کی بنا پر ابتدائی مراحل پر ہی انتخابی معرکہ آرائی سے باہر ہو جاتی ہے۔ تاہم انتخاب ہونے پر یہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لئے مقابل امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اس ضمن میں یہ امر بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ہر سطح کے انتخابات کا انعقاد آئینی، قانونی اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے متعلقہ اصول و ضوابط کے تحت آزادانہ اور منصفانہ ہو۔ بصورت دیگر باہمی لڑائی جھگڑے اور عدالتوں میں مقدمہ بازی کئی سال تک جاری رہنے سے متعلقہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و مرمت بھی رکی رہتی ہے جس سے متاثرہ عوام میں بے چینی پھیلی رہتی ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد کامیاب امیدوار قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بن جاتے ہیں ایسے حضرات مقررہ تاریخوں پر حلف اٹھا کر اپنی قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی بابت قانون سازی اور اپنے ووٹروں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ یاد رہے کہ عوام کا کسی حکمران طبقہ سے موافقت یا منافرت کا انحصار ملکی مفاد پر مبنی کارکردگی کے لئے اکثر امور سے ہوتا ہے۔
پاکستان تا حال ایک ترقی پذیر ملک ہونے سے اپنے لوگوں کے مسائل اور ضروریات کے لئے مالی وسائل کے مطلوبہ فنڈز جلد فراہم کرنے سے محروم و قاصر ہے۔ اس لئے نسبتاً زیادہ اہم منصوبوں کو ترجیح دے کر ان کی تعمیر و ترقی پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان معاملات کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو عوام میں مایوسی اور پریشانی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ نیز ان کی بنیادی اشیائے ضرورت، مثلاً گندم، آٹا، چینی، چاول، بیسن، دالیں، گوشت، شبزیاں، پھل، دودھ، تعلیم اور ادویات وغیرہ بھی عام لوگوں کی اوسط آمدنی سے آج کل کافی زیادہ نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں تو پھر عوام کے ذہنوں میں ان نمائندوں کی عدم یا غیر تسلی بخش کارکردگی کے خلاف بے اتفاقی اور ناراضی کے جذبات و خیالات رنگ پکڑتے ہیں۔ اس کیفیت میں وقت گزرنے کے ساتھ کوئی قابل ذکر بہتری نہ ہونے اور مذکورہ اصلاح طلب نوعیت کے حالات میں اضافہ ہونے سے ان میں بتدریج منافرت اور مایوسی سے مخالفانہ حالت بڑھنے لگتی ہے۔ اس رجحان سے عوام اور متعلقہ نمائندوں کے مابین باہمی عزت و احترام رفتہ رفتہ کم ہو کر عدم برداشت ناموافق سمت میں رواں رہتا ہے۔ اس لئے میلانِ سیاست میں اپنے رائے دہندگان کے علاقوں میں متعلقہ ضروریات اور قومی سطح پر عوام میں بہتر مقام و احترام کے لئے عوامی مفاد پر مبنی مثبت اقدامات کی کارکردگی کی اشد ضرورت ہے اگر متعلقہ نمائندوں کی کارکردگی لوگوں کی امیدوں یا انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے نعروں تقاریر اور کئے گئے وعدوں کے مطابق حلقوں کے ووٹروں کو دستیاب نہیں ہو گی تو پھر ان نمائندوں کی چاہت و الفت بتدریج منافرت اور دوری میں بدل جاتی ہے۔ اس صورت حال میں عوامی نمائندوں کو عوام کے قدرے ناموافق ردعمل کے لئے تیار رہ کر اپنے حق نمائندگی سے دست بردار ہونے پر بھی غور کا اظہار کرنا چاہئے۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ ایسے حالات میں بعض مقامات پر کئی لوگ برائے نام دکھاوے کی کارکردگی پر ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے، کاروباری ہڑتالیں اور دھرنے دینے کے اقدامات کرنے پر مائل و مجبور ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنے ووٹروں کے جذبات اور احترام میں اپنے عہدوں سے جلد الگ ہو جانا چاہئے تاکہ دوسرے بہتر افراد کو یہ خدمت یا ذمہ داری نبھانے کے مواقع مل سکیں۔