اچھے وقتوں میں پاکستان میں بہت مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں، مال گاڑی کے ڈبے کو ”ویگن“کہتے ہیں، سب ڈبے ویگنوں کی شکل کے نہیں ہوتے

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:77
بندر گاہ سے ریل کے ذریعے اندرون ملک بھیجا جانے والا سامان اور کنٹینر تو براہ راست مال گاڑیوں پر ہی لاد دئیے جاتے ہیں۔ اگر ایک ہی طرح کا سامان ہو تو محکمہ ریلوے کی ہدایات کے مطابق اس کے لیے ایک مکمل گاڑی مخصوص کر دی جاتی ہے جو اسے لے کر فورا ہی منزل کی طرف روانہ کر دی جاتی ہے،البتہ متفرق سامان کو ریلوے اسٹیشنوں پر لا کر اس کی چھانٹی اور درجہ بندی کی جاتی ہے اور پھرویگنوں میں بھر کے شنٹنگ یارڈ بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ایک ہی راستے پر جانے والی ویگنوں کو ایک ترتیب سے جوڑ کر ایک مال گاڑی بنا لی جاتی ہے جو انجن لے کر روانہ ہو جاتا ہے اور راستے میں جہاں بھی کسی اسٹیشن کا سامان ہو تو ان ویگنوں کو وہاں الگ کرکے گاڑی آگے آخری منزل تک بڑھتی جاتی ہے۔
اچھے وقتوں میں پاکستان میں بہت مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں، بعض دفعہ ایک دن میں دس پندرہ مال گاڑیاں نکلنا تو معمول کی بات تھی۔بعدمیں جب سڑکوں کی حالت بہتر ہوئی اور ان پر ایک تواتر سے بھاری ٹریفک چلنے لگی تو اس کے بعد زیادہ تر سامان ٹرکوں اور ٹریلروں میں آنے جانے لگا۔ مال گاڑیوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور بیچ میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب انجنوں کی کمی اور مال گاڑیوں کی مانگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سروس تقریباً معطل ہی ہو کر رہ گئی تھی جس سے محکمے کو اس مد میں بے پناہ خسارہ ہوا۔جس کی بڑی وجہ گاڑیوں کا تاخیر سے پہنچنا تھا جس پر محکمہ ریلوے یہ تاویلیں دیتا تھا کہ جب تک ریلوے کاڈھانچہ نیا نہیں بنتا، مال گاڑیوں کی رفتار بڑھانا ممکن نہیں ہے اور پٹریوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے گاڑی میں زیادہ ویگنیں بھی نہیں لگا سکتے اور نہ ہی ایک مقررہ رفتار سے زیادہ انھیں چلایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے لوگ اب کنٹینروں اور ٹریلروں میں سامان بھیجنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ویسے تو ایک مال گاڑی میں ہر طرح کا سامان جاتا ہے لیکن اس میں کچھ سامان ایسا بھی ہوتا ہے جس کیلیے مخصوص ویگن بنائی جاتی ہیں۔ ہر چند کہ مال گاڑی کے ڈبے کو ریلوے کی زبان میں ویگن کہتے ہیں، لیکن سب ڈبے ویگنوں کی شکل کے نہیں ہوتے۔چلیں دیکھتے ہیں کہ مال گاڑی کی ویگنیں کیسی ہوتی ہیں اور یہ کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
عام ویگن
یہ مختلف شکلوں اور قد کاٹھ کی ہوتی ہیں۔ ان میں متفرق یا ایک ہی نوعیت کا سامان بھیجا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ نما گودام ہی ہوتا ہے جس میں ایک ترتیب سے سامان بھرا جاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ گاڑی پر لادا جانے والا سارا سامان ایک ہی شہر کا ہو، پھربھی اس روٹ پر اگر کسی دوسرے شہر کی ویگنیں بھی ساتھ ہو لیتی ہیں تو مرکزی گاڑی ان کو بھی پیچھے لگا لیتی ہے۔ اور پھرمتعلقہ اسٹیشن پر ان کو اتار کر وہاں کے عملے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
کنٹینر ویگن
یہ سادے فرش والی ویگنیں ہوتی ہیں جس پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔ بندر گاہ سے بھرے ہوئے کنٹینر کرین کی مدد سے جہاز سے اتار کر براہ راست ان پر منتقل کر دئیے جاتے ہیں۔ اگر کنٹینر بیس فٹ کا ہے تو اس پر 2اور 40 فٹ والا ہو تو ایک کنٹینر رکھا جاتا ہے۔ یہ پوری گاڑی ہی کنٹینروں لیے مخصوص ہوتی ہے جو بندر گاہ سے نکل کر سیدھی متعلقہ شہر کی ڈرائی پورٹ پر جا کر کھڑی ہو جاتی ہے، جہاں سے بھرے ہوئے کنٹینر اْتار کر گودیوں میں رکھ لیے جاتے ہیں اور وہاں خالی پڑے ہوئے کنٹینر واپس بھیج دئیے جاتے ہیں۔ یہ سارا کام ایک مربوط نظام کے تحت ہی ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔