لوگ کیا کہیں گے؟

 لوگ کیا کہیں گے؟
 لوگ کیا کہیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک زمانے میں سجاد حیدریلدرم کے ایک مضمون ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ“ نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی تھی۔ پاکستان کو جاننے والے بہت سے نبض شناسوں کی یہ تشخیص ہے کہ یہاں سب سے بڑی سماجی بیماری یہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس خوف سے لوگوں نے زندگی سے خوشی کو طلاق دے دی ہے۔ مقروض ہو گئے ہیں۔ بلکہ تباہ ہو گئے ہیں اور اس کے باوجود لوگ ان سے خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کے متعلق کچھ نہ کچھ ایسا کہتے رہتے ہیں جو بہرحال غلط اور دکھ دینے والا ہوتا ہے۔
پاکستان میں لوگوں کو دوسروں کے معاملات میں دخل دینے کا چسکا ہے۔ ان کی اس بظاہر معصومانہ حرکت سے زندگی کتنے مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ اس پر ان کے پاس غور کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ دوست احباب بار بار پوچھتے تھے کہ شادی کیوں نہیں کی؟ اس دور میں جب بھی وہ کسی شادی کی تقریب میں جاتے تھے۔ سب سے بدصورت لڑکی کو دیکھ کر امید کرتے تھے کہ اس سے تو شادی ہو ہی سکتی ہے۔ شادی ایک جوا ہے اور ہمارے اس دوست کی لاٹری نکل آئی۔ انہوں نے بیوی کو دیکھے بغیر شادی کر لی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ خوبصورت، ذہین بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اس نے اپنے شوہر کو ترقی، کامیابی اور شادمانی کی منزل پر پہنچا دیاجس کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر شادی کے جوئے میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بہت کم ہوتا ہے۔ سماجی دباؤ کی وجہ سے نوجوان عجلت میں شادی کر لیتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ کیا جہنم اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو گا؟


شادی کے بعد اگلا مرحلہ بچے کا ہوتا ہے۔ شادی کو ایک سال گزر جائے اور بچہ پیدا نہ ہو تو ایک خاموش ہنگامہ بپا ہو جاتا ہے۔ نوجوان جوڑا لاکھ دلائل دے کہ ان کے مستقبل کے مسائل ہیں۔ ڈگری مکمل کرنی ہے۔ بہتر ملازمت تلاش کرنی ہے مگر یہ سماجی دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یوں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا ہر منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے بچہ پیدا نہ ہو تو لڑکی کو ذہنی مریضہ بنانے میں اس کے والدین اور سسرال یکساں ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔کوئی کسر رہ جائے تو وہ دوست احباب اور پڑوسی پوری کر دیتے ہیں۔ اس سے بچہ تو پیدا نہیں ہوتا تاہم ذہنی امراض کے ڈاکٹروں کی آمدنی میں ضرور اضافہ ہو جاتا ہے۔
شدید سردی ہو، نمونیا کا خطرہ ہومگر لڑکیاں سویٹر نہیں پہن سکتیں، کیونکہ سردی سے بچاؤ کی کوئی بھی صورت فیشن کا ستیاناس کر دے گی اور لوگ کیا کہیں گے کا خوف سردی کی شدت پر قابو پا لے گا اور سردی زدہ لڑکی کو ادھر ادھر دیکھ کر احتیاط کے ساتھ کانپنے کی ضرورت کو پورا کرنا پڑتا ہے۔


روزے انسان نے اللہ کے لئے رکھنے ہوتے ہیں مگر بعض لوگ ایمان کا تقاضا سمجھ کر ایسے لوگوں سے روزے کے متعلق ضرور استفسار کرتے ہیں، جن کے متعلق شبہ ہوتا ہے کہ یہ عادت، بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے۔ یوں دوسروں کی بے عزتی کرنے کا چسکا مذہبی طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ ان غریب پڑوسیوں اور رشتے داروں سے روزے کے بارے میں دریافت نہیں کریں گے جن کے متعلق انہیں علم ہوتا ہے کہ غریب ہیں، ان کے گھر چولہا کبھی کبھی جلتا ہے اور غربت نے ان کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت عید قربان کی ہے۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے قرض پر بھی ایسے زبردست بکرے خریدے جاتے ہیں کہ علاقے پر دھاک بیٹھ جائے۔ دین دکھاوے سے سخت منع کرتا ہے۔ اللہ تک قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا صرف انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ مگر ایسے لوگ بکرے کی آوازوں کو محلے تک پہنچانے کے لئے ساؤنڈ سسٹم کا بندوبست کرتے ہیں۔ کبھی ان لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو سادہ روٹی بہت مشکل سے دیتے ہیں ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ 
زندگی کو سمجھنے کی لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مغرب میں لوگ زندگی کو خوشگوار بنانے کے متعلق سوچتے ہیں۔ خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اگر آپ زیادہ خوش نظر آنا شروع ہو جائیں تو لوگ آپ کو جہنم سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمیں ہنسنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ کو یہ خیال نہیں ہے کہ آپ کو قبر کے کیڑوں نے کھانا ہے۔“ میں نے برجستہ عرض کیا کہ قبر تو خوش نصیب لوگوں کو ملتی ہے آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ کو کیڑوں کی بجائے بندروں نے کھانا ہے۔ ہمارے دوست ہم سے اس لئے ناراض ہوئے کہ ہم نے ان کی وارننگ پر انہیں داد دینے کی بجائے ان کی شان میں گستاخی کر دی تھی۔


زندگی کے پہلے مرحلے میں انسان تعلیم حاصل کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اپنی تعلیم کے ذریعے روزگار حاصل کرتا ہے اور تیسرے مرحلے میں ریٹائر ہو جاتا ہے۔ مغرب میں تو وہ یہ بتاتے ہیں کہ زندگی کو انجوائے کرنے کا وقت ہی ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ اچھی کتابیں پڑھ سکتے ہیں، پسندیدہ جگہوں پر جا سکتے ہیں حتیٰ کہ وہ کام بھی کر سکتے ہیں، جس کی حسرت ساری عمر دل میں رہتی ہے، مگر ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی آپ کو لوگ آنے والے دنوں کا ڈراوا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری ریٹائرمنٹ سے چھ ماہ پہلے ایک صاحب نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ ریٹائر ہوں جائیں گے تو وقت کیسے گزرے گا؟“ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی ”میں نے کبھی آپ کو فون نہیں کیا۔ میں کبھی آپ کے گھر نہیں گیا۔ آپ کو کیا پریشانی ہے کہ میں چائے پینے آپ کے گھر آؤں گا۔“ ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ ہمارے ایک سینئر دوست کے مطابق یہ ایک ایسا سوال ہے جو انسان کو قبر کی طرف لے جاتا ہے۔ 60سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہونے والوں کو ریٹائرمنٹ کے محض 2سال لاش نما چیز بنا دیتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ سوال ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ کچھ لوگ اس سوال کے دباؤ میں آ کر کچھ الٹا سیدھا کرتے ہیں اور اپنی جمع پونجی ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب نے یہی سوال کیا تو میں نے کہا ”اب میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ یہ سوال کرنے والوں کی بے عزتی شروع کر دوں اور میرا خیال ہے کہ یہ کارخیر آپ سے شروع کر دوں۔ کیونکہ آپ کی بے عزتی کرنے کے لئے میرے پاس خاصا زیادہ مواد ہے اور خواہش کے باوجود میں اپنی حسرت کو دباتا رہا ہوں۔“

مزید :

رائے -کالم -