عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 97
عثمانی بحریہ کے سر فروش مجاہد اپنی مہم سے کامیاب لوٹے۔ ان کا پہلا شب خون صلیبی افواج کے لئے انتہائی حوصلہ شکن ثابت ہوا۔ جسٹیانی کے دو بڑے جہاز اور کئی کشتیاں مسلمانوں کے قبضے میں چلی گئی تھیں۔ نارمن کو آخری وقت میں بچا لیا گیا تھا اور وہ قسطنطنیہ میں زیر علاج تھا۔ عیسائی بحریہ کے سو سے زیادہ سپاہی مارے گئے تھے۔ باقو بھی بچ نکلا تھا۔ البتہ روزی اپنی بستی میں لوٹنے کی بجائے بوڑھے عباس کی بیٹی بن کر اس کے ہمراہ ’’رومیلی حصار‘‘ کی جانب جا چکی تھی۔ شب خون میں مسیحی بحریہ کے پانچ جہاز جو ساحل پہ کھڑے تھے، بچ نکلے۔ لیکن پھر بھی یہ مہم سو فیصد کامیاب رہی تھی۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 96 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہنشاہ کے لئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ اس نے جنیوی سپہ سالار جسٹینانی کو بلا کرنارمن کی کوتاہی کا ذکر کیا اور جسٹینانی سے کہا کہ وہ فی الفور عثمانی بحریہ کی اس کارروائی کا بدلہ لے۔ ورنہ قسطنطنیہ کے شہریوں کا اعتماد ہمارے دفاعی انتظامات سے اٹھ جائے گا۔ شہنشاہ نے جسٹینانی کوحکم تو دے دیا لیکن نہ جانے کیوں اسے توقع تھی کہ جسٹینانی، مسلمان سرفروشوں سے پنجہ نہ لڑا سکے گا۔ اس واقعہ کے بعد آبنائے باسفورس پر مسلمان بحریہ کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ مچھیروں کی بستی میں باقو ابھی تک سلامت تھا۔ لیکن باقی مچھیرے اب عیسائی فوجیوں کے ساتھ ہمدردی نہ رکھتے تھے۔
مسیحی جہازوں پر قبضے کی خبر’’ادرنہ‘‘ پہنچی تو سلطان خوشی سے جھوم گیا۔ سلطان محمد خان نے فوری طور پر اپنے سپہ سالاروں کا اجلاس طلب کیا اوران سے کہا۔
’’اسلام کے سرفروش مجاہدو!۔۔۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک نئی تاریخ بنانے کے لیے چل پڑیں۔ ہماری خواہش ہے کہ موسم سرما کے اختتام پر ہم اپنی بہادر افواج کو لے کر قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیں۔‘‘
سلطان محمد خان کے پروقار چہرے پر پہاڑوں جیسا عزم نظر آرہا تھا۔ ینی چری کی افواج کے سپسہ سالار آغا حسن نے سلطان کی دعوت پر لبیک کہی اور اپنے لشکرکو قسطنطنیہ کی جانب لے جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ موسم سرما کا اختتام دورنہ تھا۔ چند دنوں کی بات تھی۔ چنانچہ اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ طے ہوگیا کہ جنوری1453ء کے اختتام تک سلطانی لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا جائے گا۔
قیصر روم قسطنطنین دواز دہم کے لئے یہ خبر روح فرسا ثابت ہوئی۔ اور وہ قسطنطنیہ کو عثمانی شاہیوں سے بچانے کے لیے دیوانہ وار تیاریاں کرنے لگا۔ قیصر کا زیادہ وقت اب دفاعی انتظامات میں گزرتا تھا۔ دن بھر جنگی سرگرمیوں اور فصیل شہر کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے اکم سے فارغ ہوتا تو رات کو اپنے سپہ سالاروں اور خاص خاص مشیروں کی مجلس طلب کر لیتا۔
جنوری کے آغاز میں شہنشاہ نے آس پاس کی تمام فوج قسطنطنیہ میں جمع کر لی۔ اس نے فوج کو نئے طریقے سے منظم کیا۔ یونان کے بہادر تلوار بازوں کو باقی فوج سے الگ کر کے پانچ پانچ سو جنگجوؤں کی کمان سونپی۔ ان یونانی سالاروں کو جنوبیا ور مشرقی فصیل پر متعین کر دیا تھا۔ شہنشاہ نے تمام افواج میں سے ایک ہزار بہترین شمشیر زن مقرر کرکے محافظ شاہی دستے کو از سرنو منظم کیا۔ اب محافظ شاہی دستے کا ہر سپاہی اپنی جگہ ایک معتبر سالار تھا۔ انہی یونانی سپاہیوں میں مضافاتی بستویں میں متعین سابقہ کماندار مقرون بھی شامل تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے چار سو سواروں کو مصلح الدین آغا اور قاسم بن ہشام نے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا تھا۔ مقرون ایک بدطینت اور خود سر فوجی تھا۔ شاہی دستے میں شامل ہوا تو اس کی رعونت دو چند ہوگئی۔
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی قیصر روم کے قدیمی محل میں جنگی نوعیت کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ شاہی محل کسی قلعہ سے کم نہ تھا۔ سرخ سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا قصر قسطنطنیہ کا بڑا دروازہ زمین سے چوبیس فٹ بلند اور اٹھارہ فٹ چوڑا ایک آہنی گیٹ تھا۔ اس دروازے کے دائیں بائیں فصیل شاہی پر دو دیوہیکل برج تھے جن کی بلندی چالیس فٹ سے بھی زیادہ تھی۔ بڑے دروازے سے گزر کر ایک وسیع و عریض کھلا میدان تھا جس میں ہر طرف دنیا کے مختلف پھلدار درخت اور بیل بوٹے اگائے گئے تھے۔ فرش پر قالین نما گھاس کی بہتات تھی۔ فصیل کے بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک لمبی چوڑی اور پختہ سڑک تھی جو محل کی بارہ دری تک چلی گئی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف مہندی کی گھنی باڑ تھی۔ محل کی اندرونی عمارت دور سے ہی اپنی عظمت کا اعلان کرتی تھی۔ یہ کئی سو سال پرانی لیکن پر شکوہ عمارت تھی۔ شاہی محل کی اندرونی عمارت پر پیتل کی ایک بہت بڑی صلیب نصب تھی اور اندرونی عمارت کے صدر دروازے پر ببر شیروں کے دو بڑے بڑے مجسمے تراشتے گئے تھے جن کے جبڑے کھلے تھے اور وہ ہر داخؒ ہونے والے پر جھپٹ پڑنا چاہتے تھے۔ انہی مجسموں کے پہلو میں نیزہ بردار پہرے دار کھڑے تھے جن کے جسموں پر شاہی محل کا خصوصی لباس تھا۔ محل کی اندرونی عمارت کے پہلے حصے کو قسطنطنین نے جنگی امور کے صدر دفترمیں تبدیل کر دیا تھا۔ رسد و کمک کے افسران اعلیٰ، فصیل اور محافظ شاہی دستے کے سالار اسی دفتر سے منسلک تھے۔
قیصر روم کا شاہی محل وسیع احاطے میں پھیلا ہوا تھا۔ محل کی جنوبی فصیل کے ساتھ داروغہ شاہی کا صدر دفتر واقع تھا۔ محل کی کئی فٹ چوڑی فصیل زمین سے اس قدر بلند تھی کہ پورے قسطنطنیہ سے دکھائی دیتی تھی۔ اس فصیل پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے برج بنائے گئے تھے جن میں ہر وقت مشاق تیر انداز پہرے پر موجود رہتے۔ داروغہ شاہی، شہنشاہ کی خفیہ پولیس کا سربراہ تھا اور اس کے صدر دفتر کی عمارت کئی کمروں پر مشتمل تھی۔ اس وسیع عمارت کے نیچے شاہی زندان کے تہہ خانے تھے۔ داروغہ شاہی کے دفتر میں ہر وقت پچاس سے زیادہ خطرناک سپاہی مقیم رہتے۔ یہی سپاہی بوقت ضرورت شہنشاہ کے شاہی دستے میں بھی خدمات سر انجام دیتے تھے۔
شاہی محل کے تہہ خانے میں جس روز سے قاسم کولایا گیاتھا۔ داروغہ شاہی پہلے سے زیادہ مستعد ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ قیدی جاسوس سلطان محمد خان کے لشکر کا خاص آدمی ہے۔ قاسم کو جب یہاں لایا گیا تو شہنشاہ نے داروغہ شاہی کو قاسم کسے پوچھ گچھ پر مقررکیا۔ قاسم نے خواب دانشمندی کا ثبوت دیا اور اس نے سلطانی لشکر کی تیاری کے سلسلے میں شہنشاہ کے آدمیوں کوسب کچھ بتا دیا۔ اس نے سوچا تھاکہ سلطانی لشکر کے عزائم اور تیاری کا سن کرشہنشاہ کے دل پر سلطان کی ہیبت اور زیادہ بیٹھ جائے گی۔ چنانچہ اس نے عثمانی لشکر، افواج، اسلحہ اور بحری بیڑے کی تفصیلات بڑھا چڑھا کر بیان کر دیں۔ قاسم کو یہ سب کچھ بتا دینے سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو شہنشاہ نے اس تعاون پر قاسم کی سزائے موت موخر کر دی۔ اور دوسرے قاسم تفتیش کنندگان کی اذیت سے بچ گیا۔
داروغہ شاہی جانتا تھا کہ قاسم ایک خطرناک جاسوس ہے چنانچہ وہ جب بھی قاسم کے پاس کسی قسم کی پوچھ گچھ کے لئے آتا تو اس کے ہمراہ دس خطرناک سپاہیوں کا ایک مسلح دستہ ہوتا۔ قاسم کے لئے ان کا حصار توڑ کر فرار ہونا ممکن نہیں تھا۔ قاسم جس کوٹھڑی میں قید تھا اس کے دائیں بائیں اور سامنے بھی آہنی سلاخوں والے قید خانے تھے لیکن جب سے قاسم کو یہاں لایا گیا تھا اس نے اپنے علاوہ کسی اور قیدی کی آواز نہ سنی تھی۔ قاسم جس قید خانے میں نظر بند تھا یہاں سے کسی قیدی کا فرار ممکن نہیں تھا۔
قاسم تاریک زندان میں قید تھا۔ یہ دراصل شاہی محل کا ایک تہہ خانہ تھا جسے جیل کے طور پراستعمال کیا جاتا تھا۔ اس تہہ خانے میں کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں تھا۔ زمین پر خشک گھاس پھونس بچھی تھی اور تہہ خانے کی چھت قاسم کے سر سے زیادہ بلند نہ تھی۔ قاسم چاہتا تو چھت کو ہاتھ بڑھا کر چھو سکتا تھا۔ اس چھوٹے سے کمرے کا دروازہ موٹی موٹی آہنی سلاخوں کا بنا ہوا تھا۔ یہ دروازہ ایک چھوٹی سی راہداری میں کھلتا تھا۔ اس راہداری میں چند کمرے اور بھی تھے جو قید خانے کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ راہداری کا اختتام زینوں پر ہو رہا تھا اور بیس سے زیادہ پختہ زینے اوپر شاہی محل کی عقبی عمارت میں کھل رہے تھے۔ یہ عمارت جس کے نیچے تہہ خانے تھے داروغہ شاہی کا خاص دفتر تھی۔ اس عمارت میں ہمہ وقت داروغہ شاہی کے خطرناک سپاہی موجود رہتے۔ قاسم جب سے اس کمرے میں بند کیا گیا تھا مسلسل فرارکی ترکیبوں پر غور کرتا رہاتھا۔ سلاخیں توڑنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ وہ کھانا لانے والے غلام سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کرتا رہا تاکہ کسی طرح فرار کے وقت اس کی مدد حاصل کی جا سکے۔ لیکن قاسم کی بدقسمتی سے کھانا لانے والا غلام قوت گویائی سے محروم تھا۔ قاسم کو شاہی محل کے قید خانے میں گزرنے والا ایک ایک دن ، ایک ایک صدی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ لیکن پھر بھی قاسم نے بے شمار دن یہاں گزار دیئے تھے ۔ یہاں تک کہ اب موسم سرما کابھی اختتام ہونے والا تھا۔
آغاز جنوری کی ایک نہایت سرد رات زندان کے اندر قاسم کی زندگی کی ایک نہایت اہم رات ثابت ہوئی۔ تاریک تہہ خانے کی اکلوتی مشعل کسی ٹھٹھرے ہوئے ستارے کی طرح ٹمٹا رہی تھی۔تہہ خانے کی گیلری اور باقی کوٹھیاں جو دن بھر ویران پڑی رہتی تھی اس سرد رات میں پر ہول دکھائی دے رہی تھیں۔ سردی کا یہ عالم تھا کہ تہہ خانے میں دن بھر دوڑنے پھرنے والے چوہے اپنی اپنی بلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ اوپرکی عمارت میں بھی پرہول سناٹا تھا۔تمام پہریدار گرم بستروں میں بدمست پڑے سو رہے تھے۔ داروغہ شاہی کی رہائش گاہ یہاں سے سو قدم کے فاصلے پر گھنے درختوں کے پیچوں بیچ تھی۔ قیصر کے پورے شاہی محل میں ہر طرف خاموشی کے پہرے تھے۔
لیکن تہہ خانے کے اندر قاسم جاگ رہا تھا۔ اس کا میلا کچیلا کمبل تو سردی روکنے کے لئے ناکافی تھا البتہ خود تہہ خانے کا موسم باہر کی نسبت بہت بہتر تھا۔ قاسم اپنی کوٹھڑی کی عقبی دیوار سے پیٹھ لگائے عثمانی افواج کی آمد کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب تو سلطان محمد خان کے فاتحانہ داخلے کے بعد ہی اس کو آزادی کا سورج نصیب ہوسکتا تھا۔ تہہ خانے کی لمبی راہداری میں ایک اکلوتی مشعل روشن تھی جس کی روشنی قاسم کی کوٹھڑی کے سامنے تک پہنچتے بہت کم ہوگئی تھی۔ قاسم جس دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھا تھا یہ عقبی دیوار تھی۔ اور اس طرح قاسم کی نظریں کوٹھڑی کے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں جو تہہ خانے کی لمبی راہداری میں کھلتا تھا اور موٹی موٹی آہنی سلاخوں سے بنایا گیا تھا۔
معاً قاسم کو خاموش بیٹھے بیٹھے کچھ عجیب سا احساس ہونے لگا۔ اس کی چھٹی حس یکلخت بیدار ہوگئی اور اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کے علاوہ بھی تہہ خانے کے اندر کوئی اور موجود ہے۔ قاسم کی تمام حسیات سمٹ کر اس کے کانوں میں آگئیں اور وہ پوری توجہ کے ساتھ تہہ خانے کے اندر کسی قسم کی آہٹ سننے لگا۔ لیکن تہہ خانے کا ہولناک سناٹا اپنی تمام تر ہیبت سمیت ویسے کا ویسا تھا۔ نہ جانے کیوں قاسم کے دل میں بھوت پریت کا خیال آنے لگا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ تہہ خانے کا ایک ہی دروازہ ہے جو تمام کوٹھڑیوں کے آگے سے گزرنے والی راہداری کے اختتام پر چند زینے طے کرنے کے بعد موجود ہے۔ جب بھی کوئی تہہ خانے میں داخل ہوتا، اسی دروازے سے داخل ہوتا۔ دن میں دو بار جب گونگا غلام تہہ خانے میں آتا تو پرانے کواڑوں کو چرچڑاہٹ سن کر قاسم کو خود بخود پتہ چل جاتا کہ کوئی آیا ہے۔ لیکن آج تو یہ دروازہ بند تھا۔ پھر قاسم کو کیوں ایسا لگ رہا تھا جیسے اس زندان کے اندر اس کے علاوہ بھی کوئی ہے۔
وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی نظریں کوٹھڑی کی سلاخوں پر لگی ہوئی تھیں یکلخت اسے ایسے لگا جیسے مشعل کی تھرکتی ہوئی لو خود بخود رک گئی ہو۔ اور پھر قاسم کے کانوں نے پہلی بار راہدری کے دوسرے سرے سے جو مضبوط پتھروں کی دیوار سے بند تھا۔۔۔ہلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز سنی۔ اب تو قاسم کو پوری طرح یقین ہو چکا تھا کہ زندان کی تاریک راہداری میں کوئی مافوق الفطرت ہستی موجود ہے۔ وہ توقع کرنے لگا کہ ابھی اس کے سامنے کوئی بھوت یا دیو نمودار ہوگا۔(جاری ہے )