عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 96
عباس کا خیال تھا کہ وہ ساحل پر لنگر انداز مسیحی جہازوں کو زمینی راستے سے تسخیر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسے یقین تھا کہ دونوں مقبوضہ جہازوں کے عملہ کی طرح نارمن کے باقی جہاز بھی بے خبری کے عالم میں فتح کر لئے جائیں گے۔ عباس کے اس خیال کی سب سے بڑی وجہ طوفانی رات تھی۔ آسمان آج عثمانی سپاہیوں پر رحمت بن کر برس رہا تھا اور آسمانی بجلیاں نارمن کے مقدر پر قہر بن کر کڑک رہی تھیں۔
مقبوضہ جہاز اور عثمانی کشتیاں مچھیروں کی بستی کے بالکل نزدیک مچھیروں کی گودیوں پر آلگیں۔ یہاں مچھلیاں پکڑنے والی بہت سی کشتیاں پہلے سے لنگر انداز تھیں۔ سردی عروج پر تھی لیکن بوڑھے عباس کی شریانوں میں گرم خون شعلوں کی طرح لپک رہا تھا۔ وہ کود کر گودی پر اترا اور 30سپاہیوں کو اپنے جہازوں اور کشتیوں کی حفاظت پر مامور کرنے کے بعد ایک کوس کے فاصلے پرم وجود بے خبر مسیحی جہازوں کی جانب بڑھا۔ وہ ساحل کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اس کے ہمراہ90سے زیادہ جانباز ساتھیوں کا ایک دستہ تھا جو سب کے سب بارش میں بھیگتے مسیحی جہازوں کے عقب سے ان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ کبھی کبھی رعد و صاعقہ کوندتی تو سارا ماحول روشن ہو جاتا اور وہ صاف دکھائی دینے لگتے۔ احتیاط کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے عباس کے تجربہ کا دماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ کھلے ساحل پر چلنے کی بجائے ایک کوس کا فاصلہ پتھریلی چٹانوں اور جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر عبور کیا جائے۔ چنانچہ سلطانی فوج کے بحری عقاب عام راستے سے ہٹ کر گھنی جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر چلنے لگے۔ رات اپنے پہلے پہر کے آخری حصے میں تھی۔ باسفورس کی پوری وادی وفان بادوباراں کی ہیبت سے خوفزدہ ہو کر سہمی ہوئی تھی اور 90سے زیادہ شمشیر بکف مجاہد اپنی چیتے جیسی آنکھیں چمکاتے دھیرے دھیرے مسیحی جہازوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 95پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نارمن کے بحری دستے میں صرف سات جہاز نہ تھے، اس کے باقی جہاز بحر مارمور اور گولڈن ہارن کے نزدیک لنگر انداز تھے۔ مچھیروں کی بستی سے ایک کوس کے فاصلے پر نارمن کے خصوصی جہازوں کا پڑاؤ تھا۔ نارمن خود ساحلی چٹانوں میں عالیشان خیمے نصب کئے اپنے دو سو سے زیادہ سپاہیوں کے ہمراہ مقیم تھا۔ آج کی موسلادھار بارش نے نارمن کی حس جنسیت کو مشتعل کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے سپاہی باقو کے ہمراہ مچھیروں کی بستی سے قاسم کی پہلی محسنہ ’’روزی‘‘ کو اٹھانے کے لئے گئے ہوئے تھے۔
ٹھیک اس وقت جب مکروہ باقو درندہ صفت سپاہیوں کے ساتھ روزی کی جھونپڑی میں داخل ہو چکا تھا۔ عباس کے شہباز مسیحی جہازوں کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ساحل سے تیر کر چند قدم کے فاصلے پر لنگر انداز جہازوں کی طرف بڑھتے۔ انہیں سمندر میں کوئی چیز حرکت کرتی ہوئی نظر آئی۔ عباس نے آسمانی بجلی کی چمک میں دیکھ لیا کہ سمندر میں حرکت کرنے والی چیز دراصل دو کشتیاں تھیں جو تیزی سے ساحل پر لنگر انداز جہازوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ عباس نے سوچا کہ یہ کشتیاں یا تو ان مچھیروں کی ہو سکتی ہیں جن کی گودیوں پر ابھی کچھ دیر پہلے عثمانی سپاہی آکر اترے تھے۔ اور یا پھر مفتوحہ جہازوں سے بچ کر نکلنے والے کچھ عیسائی سپاہی ہو سکتے ہیں۔ عباس نے فیصلہ کہ وہ ان کشتیوں کے جہاز تک پہنچنے سے پہلے تیر کو خود ان جہازوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن وہ اپنے اس فیصلے پر عمل نہ کر سکا۔ کیونکہ سامنے سے آنے والی کشتیوں پر موجود دشمن کے فوجیوں نے جہاز کے عملہ کو سنکھ پھونک کر خبردار کرنا شروع کر دیا تھا۔ لمبوترے سنکھ کی آواز طوفانی بارش کے شور کو چیرتی ہوئی سامنے کھڑے جہازوں تک پہنچ گئی اور لنگر انداز جہازوں میں ہلچل کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اب حماقت ہوتی اگر عباس کا دستہ تیر کر دشمن تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ کیونکہ وہ دیکھ لئے گئے تھے اور دشمن کے ساحل پر پا پیادہ موجود تھے۔ اب تو یہی بہتر تھا کہ وہ الٹے قدموں فرار ہوتے اور پیچھے مچھیروں کی بستی میں کھڑے اپنے مفتوحہ جہازوں کو برق رفتاری سے لے کر نکل جاتے۔۔۔اسی خطرے کے پیش نظر عباس نے اپنے تیس بہترین سپاہیوں کو پہلے ہی ان جہازوں کی حفاظت پر مامور کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ خطرہ دیکھتے ہی وہ ان جہازوں کو لے کر ’’رومیلی حصار‘‘کی جانب نکل جائیںَ کیونکہ عباس اور اس کے ساتھی ساحل پر تھے اور ان کے لیے زمینی راستے سے واپس بھاگنا اور تین چار میل کے فاصلے پر موجود ’’رومیلی حصار‘‘ تک پہنچنا کچھ مشکل نہ تھا۔
سنکھ کی آواز سنتے ہی مسیحی جہاز چوکنے ہوگئے اور انہوں نے فی الفور لنگر اٹھانے اور بادبان کھولنے شروع کر دیئے۔ نارمن اس بات سے بے خبر تھا کہ آبنائے باسفورس کی اس دو تین میل چوڑی آبی گزرگاہ میں اس وقت کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے کانوں تک سنکھ کی انتہائی مدہم آواز پہنچی تو تھی لیکن اسے اس قدر ہیبت ناک طوفانی رات میں کسی طرح بھی دشمن کے حملے کا خیال تک نہیں تھا۔ اور پھر ایک نوجوان حسینہ کا انتظار اس کے اعصاب پر سوار تھا۔ اس انتظار کی کوفت کو کم کرنے کے لیے وہ بار بار شراب کے جام اپنے حلق میں انڈیل رہا تھا۔
اور پھر طویل انتظار کے بعد نارمن کے سپاہی معصوم دوشیزہ۔۔۔مظلوم ’’روزی‘‘ کو اٹھا کر نارمن کے خیمے میں لے آئے۔ روزی بارش میں بھیگی ہوئی تھی۔ اس کا لباس کیچڑ سے لت پت تھ۔ غالباً درندہ صفت سپاہی اس معصوم لڑکی کو اپنے ہمراہ لانے کے لئے گھسیٹتے رہے تھے۔ نارمن نے روزی کو دیکھا تو اس کی رال ٹپکنے لگی۔ یہ حسین دوشیزہ واقعی لاکھوں میں ایک تھی۔ اس نے حکم دیا کہ اس لڑکی کو فوراً گرم پانی سے غسل دلا کر اور نیا لباس پہنا کر اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن روزی ایسا کہاں ہونے دینے والی تھی۔ وہ نارمن کا حکم سنتے ہی بدک گئی اور زور زور سے چیختے ہوئے نارمن اور باقو کو گالیاں دینے لگی۔ سپاہیوں کے لئے مشکل ہوگیا کہ وہ اس ناتواں لڑکی کو سنبھالتے یا نارمن کی عیاشی کے لئے بناتے سنوارتے۔ صیلبی لشکروں کے ہمراہ جنسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لونڈیاں اور نوجوان لڑکیاں تو ہوا ہی کرتی تھیں۔ اور عین ممکن تھا کہ نارمن کے دستے میں موجود خادمائیں روزی کو نارمن کی ہوس کے لئے نہلا دھلا کر سنوار بھی لیتیں۔ لیکن عین اسی وقت ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ نارمن کی تمام ہوس آن کی آن میں ہوا ہوگئی۔ اس کا نشہ یکلخت اتر گیا اور اس نے سب کچھ بھول کر اپنا فوجی لباس پہننا شروع کر دیا۔
کیچڑ میں لت پت ایک نوجوان نارمن کے خیمے میں وارد ہوا۔ یہ ان جہازوں کے عملے کا سپاہی تھا جو عباس کے جانباز ساتھی، صلیبوں سے چھین چکے تھے اور یہ ان سپاہیوں میں سے تھا جو حملے کے دوران بچ نکلے تھے۔ جنہوں نے ’’آبنائے باسفورس‘‘ کے بھپرے ہوئے پانی کو ایک میل تک تیر کر عبور کیاتھا۔ یہ فوجی جب مچھیروں کے ساحل پر اترے تو انہیں مچھیروں کے ساحل پر اپنے مقبوضہ جہاز لنگر انداز نظر آئے۔ یہ تعداد میں چھ تھے اور جونہی انہیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا پیدل دستہ ساحل کے راستے باقی ماندہ جہازوں کی جانب بڑھ رہا ہے تو ان چھ فوجیوں نے مچھیروں کی کشتیاں اڑائیں اور اپنے باقی ماندہ جہازوں کو خبردار کرنے کے لئے اسی جانب چل دیئے۔ کیچڑ میں لت پت نوجوان نے نارمن کو یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کا پیدل دستہ اسی ساحل پر دیکھا گیا ہے جو کچھ دیر دکھائی دینے کے بعد چٹانی سلسلے میں روپوش ہوگئے۔ نارمن کے لئے یہ خبریں دھلا دینے والی تھیں۔ اس کا نشہ ہرن ہوگیا اور وہ اپنے مقبوضہ جہازوں کو واپس چھیننے اور مسلمانوں کے پیدل دستے کو تلاش کرنے کے لئے نکلنے لگا لیکن اس سے پہلے کہ وہ سپاہیوں کوحکم دیتا، ایک سنسناتا ہوا تیر نارمن کے خیمے کا پردہ چیر کر اندر داخل ہوا اور فرش میں پیوست ہوگیا۔
خیمے میں موجود نارمن اور دوسرے سپاہیوں کی سانسیں رک گئیں۔ نارمن کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں لیکن روزی کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ اپنی عزت بچ جانے کی خوشی میں پھولے نہ سما رہی تھی۔ اسے یقین ہو چکاتھا کہ حملہ آوروں کا دستہ نارمن کی خیمہ گاہ تک پہنچ چکا تھا۔ نارمن بھی یہی سوچ رہا تھا۔ اس نے خیمے سے باہر قدم نکالنے کا ارادہ ترک کیا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ تمام فوجیوں کو مسلح ہو کر مقابلہ کرنے کی اطلاع دیں۔ نارمن ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اپنے خیمے کے اندر ان دیکھے دشمن سے خوفزدہ تھا۔ روزی کو لانے والے چند سپاہی اور باقو بھی یہیں موجود تھے اچانک خیمے کے دروازے پر آہٹ ہوئی اور پھر اگلے لمحے یکلخت کئی مسلح سپاہی نارمن کے خیمے میں گھس آئے۔
دراصل جب عباس عیسائی فوجیوں کی نظروں میں آجانے کے بعد الٹے قدموں فرار ہونے کا ارادہ کر رہا تھا تو اسے کسی مظلوم لڑکی کی چیخیں سنائی دیں۔ اس نے چونک کر آواز کی سمت پر غور کیا تو بجلی کی چمک میں اسے نارمن کا زمینی خیمہ نظر آیا۔ اس سے رہا نہ گیا۔ یہ آواز ساحل پر نصب خیموں کی جانب سے آرہی تھی۔ اس نے مسیحی جہازوں کو ساحل سے فرار ہوتے دیکھ کر نارمن کے زمینی پڑاؤ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ سب سے پہلے نارمن کے خیمے کی جانب لپکا۔مسلمان سپاہی عیسائیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے اور دونوں طرف کی تلواریں جھنجھنااٹھیں۔ نارمن خود ایک ماہر شمشیر زن تھا۔ اس نے بوڑھے عباس کو دیکھا تو اسے کمزور سمجھ کر اس پر حملہ آور ہوا۔ لیکن نارمن کو اس وقت اپنی غلطی کا احساس ہوا جب عباس کے تجربہ کارانہ داؤ نارمن کے لئے سمجھنے مشکل ہوگئے۔ مسلمان سپاہیوں نے اپنے بوڑھے سالار کو ایک وحشی کے ساتھ نبرد آزما دیکھا تو اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔
باقو جو غیر مسلح تھا اور خیمے کے ایک کونے میں کھڑا تھا حالات کی نزاکت کو بھانپ گیا اور اس نے فرار ہونے کے لئے خیمے کا عقبی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ وہ خیمے سے نکل بھی جاتا اگر روزی کی نظر اس پر نہ پڑی۔ روزی نے چلا کر ایک مسلمان سپاہی کو باقو کی طرف متوجہ کیا اور کہا۔
’’ارے! وہ بھاگ رہا ہے ۔۔۔وہ لنگڑا شیطان جو مجھے اٹھا کر یہاں لایا، وہ بھاگ رہا ہے۔‘‘
باقو کی قسمت ہار چکی تھی۔ وہ اپنی لنگڑاہٹ کی وجہ سے بھاگ تو سکتا نہ تھا فوراً مڑا اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے سپاہی کے قدموں میں گر گیا۔
’’خدا کے لئے مجھے مت مارو! میں نے کچھ نہیں کیا۔ خدا کے لئے مجھے مت مارو۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘
اب ایک مسلمان سپاہی کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ کسی گڑگڑاتے ہوئے شخص کو قتل کرتا۔ چنانچہ مسلمان سپاہی نے باقو کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثناء میں عباس میدان کارزار پر قابو پا چکا تھا۔ نارمن بری طرح زخمی ہو کر گڑ پڑا تھا اور اس کے بچنے کی امید کم ہی تھی۔ اس کے باقی ساتھی بھی تہہ تیغ ہو چکے تھے۔ نارمن کے خیمے میں تو عباس کے چند ساتھی ہی حملہ آور ہوئے تھے۔ جبکہ باقی دستہ بے خبر مسیحی سپاہیوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ اس ساحل پر نارمن کے دو سو سے زیادہ سپاہی خیمہ زن تھے اور عباس کے ہمراہ سو سے بھی کم جانباز تھے لیکن شراب کے نشے میں بدمست مسیحی فوج کے سپاہی مقابلے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ بہت قلیل وقت میں مسلمانوں نے نارمن کے پورے محافظ دستے کو زیر کر لیا۔
70سے زیادہ عیسائی مارے گئے اور باقی قسطنطنیہ کی سمت پر فرار ہوگئے۔ مسلمان سپاہیوں نے مال غنیمت اٹھایا اور تیزی سے واپسی کی تیاریاں کرنے لگے۔ اب روزی بوڑھے عباس کے ہمراہ تھی۔ عباس جب مچھیروں کی بستی کے نزدیک پہنچا تو اس نے روزی سے کہا۔
’’لو بیٹی! ۔۔۔تمہاری بستی آگئی۔۔۔اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔‘‘
’’کون سا گھر؟ میرا کوئی گھر نہیں بابا۔۔۔میرا اس دنیا میں اب کوئی نہیں رہا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جائیے۔ میں آپ کی بیٹی بن کر آپ کی خدمت کروں گی۔‘‘
عباس کے لئے روزی کاجواب غیر متوقع تھا۔ وہ خود گھر سے دور محاذ جنگ پر تھا۔ روزی کو کس طرح اپنے ساتھ رکھتا؟ پھر روزی عیسائی تھی اور مسلمانوں کے جنگی محاذ پر اس کا رہنا دفاعی نقطہ نگاہ سے بھی درست نہ تھا لیکن عباس مجبور ہو گیا ایک بے سہارا اور مظلوم لڑکی اس کا دمن تھامنا چاہتی تھی۔ وہ انکار نہ کر سکا۔(جاری ہے )