جس کا امریکہ اس کی بھینس

زیادہ پرانی بات نہیں جب ٹوکیو سے خبر آئی تھی کہ جاپانی وزیر اعظم کی تقریر کے دوران بم دھماکہ ہوا ہے۔ یقین کریں اس خبر پہ جو خوشی ملی اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ ہمیشہ یہی راگ الاپا جاتا ہے کہ جاپانی بہت پر امن لوگ ہیں۔ جن دنوں فرانس میں تنخواہ بڑھانے پر ہڑتال چل رہی تھی، اور اسی ہڑتال کے دوران پولیس اور عوام کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس خبر نے تو مانو شادی مرگ کی کیفیت طاری کر دی۔ بالکل ویسے ہی بھنگڑے ڈالے جیسے اپنے ہاں کسی بھی حکومت کے جانے پہ ڈالے جاتے ہیں۔ امریکہ میں متعدد بار سکول کے بچوں پر گولیاں برسائی جا چکی ہیں۔ ویسے تو یہ بہت بری بلکہ گندی بات ہے۔ لیکن کیا ہے کہ بعض اوقات گندی باتیں بھی دل خوش کر دیتی ہیں اور دل چاہتا ہے کہ کرتے رہیں گندی بات، گندی گندی، گندی بات۔
یہ خوش ہونے والی خبریں ہر گز نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے ایسی خبروں سے کمینی سی خوشی ملتی ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ ان خبروں میں آخر ایسی کون سی خوش ہونے والی بات ہے۔ تو جناب جب کبھی ”شریکوں“ کی کوئی خامی سامنے آئے تو لڈیاں ڈالنے کو دل کرتا ہے۔ کہ ہمیں باتیں کرنے والے خود بھی دودھ کے دھلے نہیں۔ آپ اگر ایسی خبروں پہ خوش نہیں ہوتے تو پھر آپ کو پتہ ہی نہیں کہ خوشی ہوتی کیا ہے۔
ہم دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ہم پر کوئی نہ کوئی تہمت دھردی جاتی ہے۔ کوئی بدتمیز، کوئی جاہل، کوئی قانون شکن ، کوئی دھوکے باز کہتا ہے تو کوئی دہشت گرد۔ یہ سب تمغے مہذب دنیا نے ہمارے ماتھے پہ سجائے ہیں۔ اپنی پوری دنیا میں کہیں عزت نہیں ، سوائے”کوئے یار“ کے۔ گو کہ بزتی تو ادھر بھی بہت ہوتی ہے لیکن کیا ہے کہ اپنوں کی کی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔
ویسے سچی بات ہے محسوس تو ہم ان کی بھی نہیں کرتے۔ بس کبھی کبھی ہلکا سا درد محسوس ہوتا ہے اور آنکھیں بھر آتی ہیں کہ سبز پاسپورٹ والوں کو دیکھ کر ان کا منہ غصے سے لال ہوجاتا ہے۔ پیلا ہوتا ہو تو اسے خون کی کمی قرار دے کر آئرن کی گولیاں کھانے کا مفت مشورہ دے ڈالتے، لیکن نہ جی اپنی ایسی قسمت کہاں۔ وہ لوگ ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ خوش ہو کر ہم سے ملیں، اور ہمیں عزت دیں۔ ہم کتنے ہی مہذب نظر آنے کی کوشش کریں لیکن بخدا وہ اتنے پکے ہیں کہ رائے نہیں بدلتے، اپنی پہلی رائے پہ ہی قائم رہتے ہیں۔
حالانکہ ہم تو بس چھوٹی چھوٹی گستاخیاں کرتے ہیں جیسے لائن نہیں بناتے، سگنل توڑ دیا، کام نکلوانے کی سفارش کر لی۔ سفارش نہ چلے تو تھوڑی سی رشوت دے۔ بس انھی باتوں پہ بدنام کر رکھا ہے ظالموں نے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
خود تو وہ اس سے بہت اوپر کے کام کرتے ہیں لیکن کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ اس میں سراسر رنجیدہ اور بہت حد تک سنجیدہ ہونے والی بات ہے کہ آخر وجہ کیا ہے جو وہ قتل و غارت دہشت گردی کرنے کے باوجود صاف دامن، مہذب ہی رہتے ہیں۔ جانوروں تک کے حقوق کی بات کرنے والے مسلمانوں کے حقوق بھلا دیتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ فلسطینی اسرائیل کے جبر سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
لیکن مہذب لوگ فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی دینے کے حق میں نہیں۔ فلسطین و اسرائیل کشیدگی میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ کشمیر کے تنازعے پہ امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ بس جی امریکہ کے بارے یہی کہا جاسکتا ہے جس کا امریکہ اس کی بھینس۔