قبرستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ مُردوں کے علاوہ کوئی 5 لاکھ زندہ لوگ بھی رہائش پذیر ہیں، زندوں نے کبھی الزام نہیں لگایا کہ وہ راتوں کو انہیں ڈراتے ہیں 

  قبرستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ مُردوں کے علاوہ کوئی 5 لاکھ زندہ لوگ بھی رہائش ...
  قبرستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ مُردوں کے علاوہ کوئی 5 لاکھ زندہ لوگ بھی رہائش پذیر ہیں، زندوں نے کبھی الزام نہیں لگایا کہ وہ راتوں کو انہیں ڈراتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:10
ابھی کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ ایک جگہ سڑک کنارے بڑے عجیب و غریب سے چھوٹے بڑے کمروں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ پھیلا ہوا نظر آیا جو میلوں تک سڑک کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے تو اس نے جواب دینے کے بجائے گاڑی کو بریک لگائی اور آہستگی سے اسے ایک طرف کھڑی کرکے نیچے اتر آیا اور مجھے بھی باہر آنے کو کہا۔ وہ مجھے لے کر ان کمروں کی طرف بڑھا۔ قریب جا کر دیکھا تو یہ درو دیوار کے ساتھ مکمل کمرے تھے جن میں کھڑکیاں بھی تھیں اور دروازے بھی، حتیٰ کہ کچھ میں روشن دان تک بھی نظر آ رہے تھے، تاہم کسی بھی کمرے پر کوئی پکی چھت موجود نہیں تھی۔
اس نے بتایا کہ یہ یہاں کا سب سے بڑا اور مرکزی قبرستان القرافہ ہے اور ہر کمرہ کسی مخصوص خاندان کا ذاتی مدفن تھا۔ حیرت انگیز طور پر ان احاطوں میں نہ صرف مُردوں کے مقابر تھے بلکہ یہ جیتے جاگتے انسانوں کے ٹھکانے بھی بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کمروں میں قبروں کے ساتھ ساتھ بے شمار خاندان بھی آباد تھے جنہوں نے قبروں کے ارد گرد جگہ بنا کر اپنی رہائش رکھی ہوئی تھی اور نہ صرف یہ کہ وہاں ہر بنیادی سہولت موجود تھی بلکہ بجلی اور پانی کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا تھا۔ اس لئے قبروں کے تعویزوں کے ساتھ رکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے ریفریجریٹر واشنگ مشین اور ٹی وی بھی نظر آ جاتے ہیں، جو اس سوگوار ماحول میں مصری ملکہ ترنم مادام اُم کلثوم کے المیہ نغمے بھی سناتے رہتے تھے۔ کونے میں ایک چھوٹا سا باورچی خانہ بھی موجود تھا۔ جہاں گیس سیلنڈر سے چلنے والے چولہے نصب تھے۔ اگر ان کمروں میں سے قبروں کو نکال کر ان کی پکی چھتیں بنا دی جاتیں،تو یہ ایک خاندان کے رہنے کے لئے ایک محفوظ اور خوبصورت گھر بن جاتا۔
کچھ قابض مکینوں نے بارش اور دھوپ سے بچنے کی خاطر مناسب اور محفوظ چھتیں بنا کر وہاں مستقل قیام کا عندیہ دے دیا تھا اور جہاں کہیں یہ ممکن نہ ہوا وہاں چھت پر ترپال یا پلاسٹک کی شیٹ بچھا کر موسم کی سختیوں سے بچنے کا آسرا کر لیا تھا۔ یہاں قاہرہ کے وہ بے گھر لوگ رہتے تھے،جو ملک کے دوسرے حصوں سے روزگار اور اچھی زندگی کی آس لئے یہاں آگئے تھے اور پھر کوئی اور ٹھکانہ نہ پا کر یہیں کے ہو رہے تھے۔مجھے بتایا گیا کہ یہاں بھی قبضہ گروپ سرگرم عمل تھے، جو اچھی خاصی رقم وصول کر کے ضرورت مندوں کو ایسے ”گھروں“ کا قبضہ دیتے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق اس قبرستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ مُردوں کے علاوہ کوئی پانچ لاکھ زندہ لوگ بھی رہائش پذیر ہیں اور وہ دونوں بڑے ہی پُرامن اور بقائے باہمی کے اُصولوں پر ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ نہ تو مُردوں نے کبھی اُن کے ٹی وی کی آواز بلند ہونے پر احتجاج کیا تھا اور نہ ہی زندوں نے کبھی اُن پر الزام لگایا کہ وہ یا ان کے بھوت راتوں کو نمودار ہو کر انہیں ڈراتے ہیں۔ دونوں ایک غیر تحریر شدہ معاہدے کے تحت بہت سکون اور رواداری کے ساتھ ایک ہی چھت تلے اپنی مصروفیا ت جاری رکھے ہوئے تھے۔اس وقت بھی وہاں ایک”گھر“میں تاش کی بازی لگی ہوئی تھی، اور شریک محفل با آواز بلند ایک دوسروں کے پتوں کا شکار کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور کھیل میں شرکت کی با ضابطہ دعوت بھی دی، جو ظاہر ہے عالم سفر میں ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے قبول کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔اس لئے ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -