حکمت اور دانائی کی تلاش کیلئے بچہ بن جاؤ، اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کر لیں تو خوشی و دولت مستقبل میں ہمارے منتظر ہوتے ہیں 

  حکمت اور دانائی کی تلاش کیلئے بچہ بن جاؤ، اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا ...
  حکمت اور دانائی کی تلاش کیلئے بچہ بن جاؤ، اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کر لیں تو خوشی و دولت مستقبل میں ہمارے منتظر ہوتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:220
یہ ایک عالمگیر اصول ہے کہ احساس کمتری، ناکامی اور احساس شکست پر مبنی رویہ کمتر ناکام اور شکست خورہ افراد جنم دیتا ہے۔
لیکن اگر ہم اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں، زندگی کے معاملات میں صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ کی پہچان کر لیتے ہیں، کامیاب لوگوں کے ساتھ اپنا میل جول برقار رکھتے ہیں، اپنے لیے عظیم مقاصد متعین کرتے ہیں تو خوشی و مسرت، دولت، ذہنی سکون اور ایک متاثر کن  شخصیت، مستقبل میں ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔
یہ بھی ایک عالمگیر اصول ہے کہ احساس برتری، کامیابی اور احساس فتح پر مبنی رویہ، برتر، کامیابی اور فتح مند افراد جنم دیتا ہے۔
اس حوالے سے انجیل مقدس میں بھی کچھ تصورات موجود ہیں، مثلاً:
”ایک بچے کی مانند سوچو۔“
”حکمت اور دانائی کی تلاش کے لیے بچہ  بن جاؤ۔“
”صرف ایک بچے ہی کو مکمل فہم و فراست اور سوج بوجھ حاصل ہے۔“
”ایک بچہ ان کی قیادت کرے گا۔“
مندرجہ بالا تصورات سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ: 
”اپنی زندگی کو دوبارہ مثبت انداز میں ڈھالنے کے لیے اپنے مستقبل کے متعلق اپنی سوچ میں وسعت اور معقولیت پیدا کرنے کے لیے ایک شخص کو لازمی طور پر چاہتے کہ وہ دوبارہ بچہ بن جائے اور وہاں سے اپنی کوششوں کا آغاز کرے۔“
ماہرین نفسیات، دو پہلوؤں پر مبنی اس انداز فکر کو لوگوں کی طرف ایک نئے مرتکز مقصد کے حصول کے ضمن میں استعمال کرنے پر زو ر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنے بچپن کے زمانے میں واپس چلا جائے،اپنے بچپن کا دور اپنے اوپر طاری کرلے اور جائزہ لے کر اس کے خیالات کیسے وجود پذیر ہوئے، اور دوسرے ایک بچے کے ذہن سے ابھرنے والی خالص، مثبت اور شفاف سوچ کے ذریعے مثبت مقاصد کے حصول کے ضمن میں اپنی سوچ، نظریات اور رویوں میں تبدیلی پیدا کر ے۔
”ایک نئی ابتدا ء کیسے کی جائے، آغاز نو کیونکر ممکن ہے“ کے متعلق فہم وادراک اور معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی دونوں اقسام، ناکام اور کامیاب، پر نظر ڈالیے کہ لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔ لوگوں کی ان دو اقسام میں فرق ہی ان کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔
ناکام لوگوں کو مستقبل نہایت خوفناک اور ہولناک نظر آتا ہے:
آئیے، اب ہم احساس کمتری ناکام اور احساس شکست پر مبنی رویے کو بنظر غور دیکھیں۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ ہم ایک شادی شدہ جوڑے کو بلاتے ہیں جس کا نام ”معمولی کامیابی تھا“ اور یہ جوڑا اپنے بچے کی پیدائش کا اعلان یوں کرتا: 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -