سیاست میں اعلیٰ ظرفی کی ضرورت
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ملک بھر میں عموماً اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں خصوصاً بعض سیاسی رہنما نمائندے اور بیشتر بڑی جماعتوں کے سرگرم کارکن اور حامی حضرات ایک دوسرے پر آئین و قانون اور ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات دیدہ دلیری اور تسلسل سے عائد کر رہے ہیں۔ یوں ملک میں باہمی عزت و احترام اور ادب و لحاظ کے اخلاقی تقاضوں کو شب و روز بہت لاپروائی اور بے اعتنائی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سیاسی شعبہ کی بیان بازی میں حریف نمائندوں اور کارکنوں کے معقول اور مثبت انداز کے دلائل اور حقائق پر توجہ دینے کی بجائے ان کو محض فریق مخالف کی آواز یا مطالبہ جان کر جلد مسترد یا نامنظور کرنے کا ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ قومی سیاست میں انتخابات کے انعقاد سے امیدوار حضرات و خواتین کو کامیاب ہونے پر رکن صوبائی یا قومی اسمبلی کا مقام و مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ لوکل باڈیز کے انتخابات میں امیدوار مقامی سطح پر مختلف نشستوں پر قانون کے تحت دیگر مقابل امیدواروں سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی کا اعزاز حاصل کرتے ہیں اور وہ طے شدہ قانونی شرائط و ہدایات کی تکمیل کر عوامی خدمت کرتے ہوئے اپنے حلقوں کے لوگوں کے مسائل و مشکلات حل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کارکردگی میں انسانی اہلیت و صلاحیت اور ذہنی کاوشیں خلوص نیت اور دیانتداری بروئے کار لانے کی ہر علاقہ، قصہ، گاؤں، محلہ اور گلی میں غیر ضروری تاخیر کے بغیر اشد ضرورت ہے۔ معاف کیجئے موجودہ ملکی سیاست کاری میں آج کل بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور حامی کارکنوں کے مابین ایک دوسرے پر انتخابات کے بروقت انعقاد کے معاملہ پر شدید مخالفانہ الزامات کی گولہ باری چند ماہ سے پڑھنے اور سننے میں آ رہی ہے۔ اس جاری رجحان سے عیاں ہوتا ہے کہ جلسے مذکورہ بالا توہین و تضحیک کے کلمات و القابات ذاتی یا کسی دشمن ملک کے افراد کے لئے استعمال اور مسلط کئے جا رہے ہیں۔
ایسے اشتعال انگیز سیاسی حالات سے مخالف نمائندوں اور حلقوں میں ناراضگی اور غم و غصہ کی لہر کا پیدا ہونا بلا شبہ ایک فطری عمل ہے۔ جس پر متاثرہ فریقین کا جواب بھی کم و بیش ویسے ہی یا قدرے زیادہ تلخ ترش اور کاٹ دار الفاظ اور لب و لہجوں میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سیاسی کشیدگی، وطن عزیز میں گزشتہ چند سال سے ایسے سیاسی حریفوں میں کافی زور و شور اور بد تمیزی اور بد کلامی سے رائج و جاری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یوں سیاسی امیدواروں اور کارکنوں کے طرز عمل کے تیزی سے بگڑتے رویئے اور وتیرے سے معاشرے میں انتشار فساد اور لڑائی جھگڑوں کے حالات اور واقعات بڑھانے میں خاصا منفی کردار ہے۔ یہ مخاصمانہ رجحان، سیاست کاری میں باہمی رنجش، عداوت اور دیرینہ دشمنی کو تقویت دے کر دوستی اور خوشگوار ماحول کو پروان چڑھانے کی بجائے ایک دوسرے کی جان و مال کے لئے خطرات کے خدشات کو ہوا دے رہا ہے۔ اس کج روی سے ہماری نوجوان نسل کیا کوئی مثبت اور سود مند سبق حاصل کرے گی؟
اہل سیاست کی خدمت میں ادب و احترام سے گزارش ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد کامیاب ہونے کی صورت میں ہی کسی مجاز ایوان کی نمائندگی حاصل ہو سکتی ہے لیکن اس ضمن میں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ہر قسم کے انتخابات کا انعقاد آزادانہ اور منصفانہ طور پر ہونا بھی اہم آئینی اور قانونی تقاضا ہے۔ پھر حکومت تشکیل دینے کیلئے کامیاب ہونے والے اکثریتی نمائندوں کی حمایت حاصل کرنا بھی لازم ہے۔ لیکن یہ امر بھی قابل توجہ اور زیر غور رکھا جائے کہ ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے بغیر انتخابات کو فوری یا جلد کرانے کا مطالبہ کسی محب وطن اور با شعور شہری اور رہنما کے لئے معقول درست اور جائز معلوم نہیں ہوتا۔ معاشی بہتری کے لئے اگر چند ماہ کے لئے وقت ضروری انتظار کا تقاضا کرے تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے، یہ انداز فکر و عمل بیشک قومی ضرورت کی حیثیت سے زیادہ اہمیت اور قدر و منزلت رکھتا ہے۔ اس لئے ہمارے سیاست کار حضرات کو عجلت کی بجائے اعلیٰ ظرفی کا مظاہر کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ ماضی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کئی بار ایک ہی دن ہوتے رہے ہیں۔ ان پر کبھی از خود نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی کبھی کسی شخص یا فریق نے ایسا کوئی مطالبہ یا عرض داشت کسی متعلقہ عدالت میں دائر کر کے اس کے حصول کی سعی پر توجہ دی ہے۔ موجودہ دور میں مذکورہ بالا حقائق کو بھی پیش نظر رکھ کر معاشی بہتری کے معاملہ کو ترجیح دی جائے۔ معاملہ ہذا میں مفاہمت مصالحت اور فیصلہ کرنے والے حضرات کو ملک کے 23 کروڑ افراد کی اکثریت کے حق نمائندگی پر توجہ دینا اور نظر رکھنا ضروری ہے۔