پاکستان کا بھارت کو جواب
وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے ہوئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اقدام کو مسترد کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر پاکستان کا پانی روکا گیا تو اِسے اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، شملہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا حق بھی محفوظ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی آمد ورفت، بھارت کے لئے فضائی حدود اور ہر قسم کی تجارت بند کر دی گئی ہے چاہے وہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہی ہو رہی تھی۔اِس کے ساتھ ساتھ بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتی عملے کو 30 ارکان تک محدود کرنے کے علاوہ وہاں کے دفاعی،بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔ سکھ یاتریوں کے سوا تمام بھارتی شہریوں کے ویزے بھی فوری طور پر منسوخ کر دیے گئے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنا بے بنیاد اور غیر منطقی ہے۔اعلامیے کے مطابق کمیٹی کے شرکاء نے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی اقدامات کو یکطرفہ، غیر منصفانہ، سیاسی مقاصد پر مبنی اور غیرقانونی قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تینوں سروسز چیفس،نائب وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کے علاوہ وزیرقانون،اٹارنی جنرل، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور معاون خصوصی برائے امور خارجہ ط نے شرکت کی۔کمیٹی اجلاس کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے وفاقی وزراء اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یہاں یہ اَمر قابل ِ ذکر ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا یکطرفہ اعلان تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے، ماضی میں جنگوں اور کشیدگی کے باوجود کبھی کسی کی بھی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پاکستان نے سخت بھارتی اقدامات کا اسی طرح جواب دیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے منگل کو مقبوضہ جموں اور کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 28 سیاح ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق واقعہ پہلگام کے ایک سیاحتی ریزورٹ میں پیش آیا،مرنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق راجستھان، کرناٹکا اور گجرات سے تھا۔ بھارتی حکومت نے واقع کے بعد قومی سلامتی سے متعلق کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیاجبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے واپس وطن پہنچ گئے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت کابینہ اجلاس کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا، یہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کر دیئے،وہاں موجود پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا،سارک کے تحت ویزے، واہگہ بارڈر اور اٹاری چیک پوسٹ بند کرنے کا اعلان کر دیا، پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر بھارت چھوڑنے کا کہہ دیا، بھارتی دفاعی اتاشیوں کو واپس بلانے اور پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کا عملہ یکم مئی تک 55 سے کم کر کے 30 تک محدود کرنے کا بھی اعلان کیا۔ واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں لاکھوں فوجی مستقل طور پر تعینات کر رکھے ہیں، زیادہ تر انٹرنیٹ کام ہی نہیں کرتا اور اگر کرے تو سپیڈ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔یہ وقوعہ ایسے علاقے میں ہوا جہاں صرف پیدل ہی جایا جا سکتا ہے،علاقے میں مکمل سکیورٹی بھی موجود تھی، اس واقعے کے وقت امریکی نائب صدر بھی بھارت کے دورے پر تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک واقعات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن بھارت نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر سخت فیصلے بھی کر ڈالے، حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف گروہ ”دی ریزسٹنس فرنٹ“ قبول کر چکا ہے،جو بھارتی میڈیا کے مطابق کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ بھارت کو ”گمان“ ہے کہ حملہ آوروں میں دو پاکستانی بھی شامل تھے تاہم موقع سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ واقعے کے بعد سینکڑوں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا گیا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت اِس واقعے میں اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے وہاں جیلوں میں قید کسی پاکستانی کو مار بھی سکتا ہے۔ یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے،اس کے حل کے لئے اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں لیکن ان پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا، پاکستان کشمیری عوام کے حق ِ خودارادیت کا حامی ہے، تنازعہ کشمیر کا حل وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہی ہونا چاہئے لیکن مودی سرکار نے تو کشمیر کی آئینی حیثیت ہی بدل ڈالی ہے، اگست 2019ء میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے مودی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر میں سب اچھا ہے لیکن ایسا ہے نہیں اور یہ پاکستان نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کے رہنماء راہول گاندھی کا مطالبہ ہے کہ وہ ”جھوٹے دعوؤں“ سے آگے بڑھ کر کشمیر کے حقیقی حالات کا سامنا کرے۔
دہشت گردی کسی بھی حال میں کہیں بھی قابل قبول نہیں ہے، پاکستان ہمیشہ سے اس کی مذمت کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا،وہ تو خود اس عفریت کا شکار ہے۔بھارت کو پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔بھارتی میڈیا میں اِس وقت پراپیگنڈہ عروج پر ہے، بغیر ثبوت کے اپنی مرضی کا راگ الاپ رہے ہیں، سوشل میڈیا پر اِک کہرام برپا ہے، حالت یہ ہے کہ بھارتی میڈیا جن کے بارے میں دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں، وہی لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیوز لگا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔پاکستان پہلگام حملے کی مذمت کرتا ہے، لیکن بھارت کو بھی کسی کے صبر کو اتنا نہیں آزمانا چاہئے، اہل ِ کشمیر کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں، اگر ان کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، ظلم کا بازار گرم رہے گا تو کسی بھی قسم کا ردعمل بعید ازقیاس نہیں ہو سکتا۔ مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کا خمیازہ عام آدمی بھگت رہا ہے، ان کی ضد میں جان تو بے گناہ شہریوں کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے اقدامات پر غور کرنا چاہئے۔
پاکستان بے بنیاد الزامات کا مقابلہ کرنا جانتا ہے، اس کا واضح اور پُراعتماد جواب اس بات کا آئینہ دار ہے۔اصولی طور پر اگر بھارت کو خدشات تھے تو وہ پاکستانی حکومت سے رابطہ کرتا، ہر معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، بھارت کے انتہائی اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دھونس اور زبردستی کا قائل ہے۔پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری دنیا معترف ہے اور بھارت کے خلاف تو بہت سے ممالک کے پاس شواہد موجود ہیں، شاید یہی بات اسے ہضم نہیں ہو رہی۔ اسے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،اسے بالآخر منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔