جِن کے بچے!

جِن کے بچے!
جِن کے بچے!
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیںجو آپ کو یک لخت آسمان سے زمین پر ا ٓ پٹختے ہیں کہ بندہ منہ چھپاتا پھرتا ہےسمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کرے تو کرے کیا؟اردو بولی ہے یا زبان؟کوئی اردو دان ہی یہ ٹیکنیکل وضاحت کر کے شکریہ کا موقع دے سکتا ہے محترم سجاد جہانیہ صاحب جو مجھ جیسے نئے لکھنے والوں کے لئے استاد کا درجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا موٹیویشن کا ذریعہ بھی ہیں نے کہا کہ زبان فارسی کا لفظ ہے اور بولی ہندی کا لفظ ہے، دونوں کے معنی تقریباََ تقریباََ ایک جیسے ہی ہیں© ©، ہم اس کی ادائیگی کچھ اس طرح کر یں گے کہ جب ہندی لفظ استعمال کرنا چاہیں گے توہم کہیں گے" ماں بولی" اور فارسی میں"مادری زبان" ہندی لفظ بولی اور فارسی لفظ زبان دونوں ہی انگریزی لفظ لینگوئج کے معنی میں آتے ہیں، یہ ہمیں خود ہی سمجھنا پڑے گا میرے جیسا دیر سے سمجھنے والابندہ بولی اور زبان کے چکر سے نکل بھی آئے تو الفاظ کا گھن چکر اپنے اندر جکڑ لیتا ہےجیسے ایک مسجد میں اعلان ہو رہاتھا کہ ہمیں ایک بچہ ملا ہے ، عمر چھ سال ،سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیںاور اپنا نام اسلم بتاتا ہے، جن کا بچہ گم ہو گیا ہو وہ یہاں آ کر لے جا سکتے ہیںمیں کافی دیر یہ سمجھ ہی نہ سکا کہ مسجد والوں کو جن کا بچہ مل کیسے گیا؟
اس جن بچے کے امی ابو تک یہ اعلان کیسے پہنچے گا؟میںاپنی کم مائیگی اور شرم کی وجہ سے کسی سے بھی یہ پوچھنے کی جرات نہ کرسکاکہ اصل ماجرا ہے کیا؟پھر گذشتہ دن پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے بیان دیا کہ جن کے بچے اس ملک میں نہ ہوںاسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگاپھر سمجھ نہ آئی کہ اگر جن کے بچے یا بھوت کے بچے اس ملک میں نہیں ہیں تو جن کو ہمارے ملک سے کیا لینا دینااور اگر جن کے بچے اس ملک میں ہیں تو جن کا اس ملک سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟پھر اللہ بھلا کرے میرے دوست ملک صاحب کا جنہوں نے وضاحت کی کہ اس فقرے میںجن کا مطلب جس ہے یعنی جس کے بچے اس ملک میں نہ ہوں اسے اس ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوگا پھر جا کر عقل شریف کو سمجھ آئی آج تک جن کی کسی کو بھی سمجھ نہیں آئی مگر ملک صاحب نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح مجھے جن کی سمجھ آ جائے مگر سمجھ نہ آئی تو جن کو جس سے تبدیل کرکے مغز ماری کرنے کی بے کار کوشش کیپھر ایک شعر دماغ میں اٹک گیا کہ اس میں جن کا کیا مطلب ہے؟
اُن کو محسن کی ضرورت کیا ہے
جن کے محسن ہزار ہو جائیں
اب اس میں جن کا مطلب واقعی جن ہے یا یہاں بھی جن کا مطلب جس ہے؟میں موقع کی مناسبت سے اس شعر میں کبھی جن کا مطلب جن لے لیتا ہوں اور کبھی جس لے لیتا ہوںہیں نا ہمارے مزے کہ اپنی مرضی کا مطلب لے لیا جائےپھر میری سوئی اڑ گئی کہ مری ایک جگہ کا نام ہے یا پھر کبھی بھائی اپنی بہن کو کہتا ہے کہ تمہیں تمہاری دوست کے گھر لے جاتا ہوں، کیوں مری جا رہی ہومیں نے پوچھا کہ شازیہ مری جا رہی ہے، اس کا کیا مطلب ہو گا کہ شازیہ مری مقام والے مری جا رہی ہے یا پھر کسی اور وجہ سے مری جا رہی ہے؟ بعد میں پتہ چلا کہ محترمہ شازیہ کی ذات ہے مری، نہ وہ مری جارہی ہیں اور نہ ہی وہ مری جا رہی ہیں۔
ہمیں اجازت دے دی گئی ہے کہ ہر لفظ کا اپنی مرضی کا مطلب نکال لیا جائے، شاید اسی آزادی کو دیکھتے ہوئے سیاست دانوں نے بھی اپنے دھرنے کو جائز اور دوسروں کے دھرنے کو ناجائز قراردینے کی روایت ڈال رکھی ہےاسی طرح اپنے لانگ مارچ کو درست کہتے ہیں اوردوسرے کے لانگ مارچ کو ناجائز کہا جاتا ہےاپنے لانگ مارچ میںہزاروںکا مجمع لاکھوں کا مجمع دکھائی دیتا ہے اور دوسروں کے لانگ مارچ میں شریک لاکھوں افراد بھی ان کو چند ہزار ہی دکھائی دیتے ہیں میاں صاحب گیلانی سے استعفیٰ مانگیں اورسابق صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کریں تو وہ درست اور اگر عمران خان نواز شریف سے مستعفی ہونے کے ساتھ کچھ اور سخت باتیں کرے تو وہ بہت بُری بات سمجھی جاتی ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے دور ِ حکومت میں قرض لے تو ملک کو لوٹ کر کھا گئی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور جب اسحاق ڈار اربوں ڈالر کے قرضے لیں توملک خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہےخواجہ آصف پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو عوام کے لئے عذاب کہتے تھے اور سمجھتے بھی تھے مگر جب خود وفاقی وزیر بنے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی مجبوریاںاور مشکلات سامنے آئیں او ر عوام سے اپیل کی جانے لگی کہ وہ قربانی دیں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سیاسی لوگ اپنی منطق پر بڑی سختی سے اڑے رہتے ہیں اور میرے دوست ملک صاحب جیسے دوست لاکھ کوشش کر لیں یہ جن کو جس سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور اسی طرح مری کا بھی اپنے مزاج کے مطابق مطلب لیتے ہیںحکومت اور اقتدار میں آنے کے بھی الگ الگ مطلب لئے جاتے ہیںاقتدار میں ہوتے ہوئے مہنگائی اور بے روزگاری کے اور مطلب ہوتے ہیں اور طرح طرح کی مجبوریاں اور مشکلات کا اظہار کیا جاتا ہے اور جب وہی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اور معنی اخذ کرتی ہے اور حکومت کی مجبوریاں اور مشکلات ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتیاپوزیشن کہتی ہے کہ جن (حکمرانوں)کے کرتوت ایسے ہوں ان کے ہوتے ہوئے ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟

حکومت کہتی ہے کہ ہمیں عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم پانچ سال میں ملک کی قسمت بدل دیں گے، ہمیں وقت پورا کرنے دیا جائے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ اپوزیشن کیوں مری(مقام مری نہیں)جا رہی ہے؟حکمران اب بہت تیز اور تربیت یافتہ ہو گئے ہیں کہ بولی اور زبان کے چکر کو بہت پیچھے چھوڑ کر جن اور مری جیسے الفاظ کا بھی اپنا مطلب نکالنے میں کمال مہارت حاصل کر چکے ہیں،انہوں نے تو فقرے بھی اپنی مرضی اور مطلب کے ایجادکر لئے ہیں کہ حکومت کہتی ہے کہ ہم گذشتہ حکومتوں کا پھیلایا ہوا گند صاف کر رہے ہیں حکومت کو درپردہ اور خفیہ طاقتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی مگر اپوزیشن کو سب کچھ سمجھ بھی آرہا ہوتا ہے اور دکھ بھی رہا ہوگاایک بات کا مطلب سب حکمران ایک ہی معنی نکالتے ہیں کہ اگر انہوں نے ملک کا اقتدار چھوڑا تو ملک تباہ و برباد ہو جائے گا،لا قانونیت ہو گی، خوشحالی ختم ہو جائے گی اور لوگ بد حال ہو جائیں گے۔ ان کو پکا یقین ہو تا ہے کہ ان کے اقتدار کے بعد ملک چل ہی نہیں سکے گاجیسے نواز شریف نے کہا کہ میں اگر استعفیٰ دے دوں تو ملک بحرانوں کا شکار ہو جائے گا۔
 مزے کی بات یہ کہ ہر حکمران یہ سوچتا ہو ا اللہ کے پاس گیا ہوا ہے یا پھر گھر میں تنہابیٹھ کردوسرے حکمران کو یہی بات کرتے ہوئے دیکھ کر زیر لب مسکرا دیتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ پاگل، کچھ بھی نہیں ہوتا ، میں بھی تو یہی کہتا تھااب اٹھارہ کروڑ سے زائد عوام میں سے کسی ایک پاکستانی کو میں یاد ہی نہیں، پتہ نہیں میرا بنایا ہوئی کوئی موٹر وے اور پل کسی کو یاد بھی ہے کہ نہیں؟اور دکھ کیا کم تھے کہ ہمیں اردو کا دکھ بھی ساتھ میں دے دیا گیا اب اردو کو ایک بولی کہیں یا پھر اردو کو ایک زبان کہیں؟اردو بولی جانے والی بولی ہے یا پھر اردو زبان بولی جاتی ہے؟جو کوئی کچھ بھی لکھ لے مطلب آپ نے خود سمجھنا ہے کہ جِن سے مراد واقعی اصلی والا جِن ہے یا پھر اس کا مطلب جس ہےاسی طرح حکمرانوں کے سیاسی بیانات کو بھی آپ نے خود سے ہی سمجھنا ہے اگر آپ کو اس کی سمجھ آجاتی ہے تو ٹھیک ورنہ حکمران ٹھیک کہتے ہیںمثال کے طور پر جب حکمران کہتے ہیں کہ ہم ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کر رہے ہیںتو اس کا کیا مطلب ہوگا اور جب حکمران کہتے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک سخت دور سے گزر رہا ہےجب سیاست دان یہ کہتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے لئے سیاست کے میدان میں آیا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم سمجھ جائیں کہ عوام سے مراد اُس سیاست دان کے گھر والے اور خاندان مُراد ہے جبکہ ہم بھولے لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ عوام سے مُراد ہم عام لوگ ہیںاب اگر عوام ہی کم عقل اور میری طرح دیر سے سمجھنے والے ہیںاور کہی گئی بات کا اپنی عقل کی بنا پر غلط مطلب اخذ کر لیتے ہیں تو اس میں بیچارے سیاست دانوں کا تو کوئی قصور نہیں ہماری سمجھ ہی غلط ہے اور ہم گلہ کرتے ہیں دوسروں سےاب اگر آپ بولی کو زبان کہیں اور زبان کو بھی زبان سمجھیں تو اس میں اردودان کا کیا قصور؟ غلطی ہماری ہے کہ ہم اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق کسی بھی لفظ یا فقرے کا مطلب کیا لیتے ہیں؟جن اور جس ، مری جانا اور مری جانا ، اسی طرح بولی اور زبان ، ہم کیا سمجھتے ہیں اور کیا مطلب لیتے ہیں؟

مزید :

کالم -