عطیہ فیض
90شاہراہ قائد اعظم پر کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف صدارت کر رہے تھے۔ پنجاب کا ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ زیربحث تھا۔ میاں شہبازشریف اسے جلدازجلد مکمل کرانا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ متعلقہ قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرنے کے لئے کابینہ کی منظوری چاہتے تھے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار انہوں نے کھل کر کر دیا تھا۔ وزراء بڑھ چڑھ کر قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر کے اس ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کے لئے زور دے رہے تھے۔ شہبازشریف کے وزراء باس کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھے اور باس بھی ایسا جو دوسروں کو بے عزت کرنے کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو۔سیکرٹری فنانس نے اس منصوبے کے متعلق دبے لفظوں میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ چیف سیکرٹری کے اظہار خیال کی باری آئی تو انہوں نے کھل کر سیکرٹری فنانس کے تحفظات سے اتفاق کیا۔ انہوں نے شفافیت کو سرکاری کام میں لازم قرار دیا اور قواعد و ضوابط کو نظرانداز نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ چیف سیکرٹری کی گفتگو میں دلائل کی قوت تھی۔ وہ وزیراعلیٰ سے بہت خوبصورت انداز میں اختلاف کر رہے تھے۔ اپنے دلائل سے وہ کابینہ کو یقین دلا رہے تھے کہ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر نہیں ہو گی مگر قواعد کو نظرانداز کرنے کا رسک نہیں لینا چاہیے۔ میاں شہبازشریف نے چیف سیکرٹری کی مدلل گفتگو تحمل سے سنی اور پھر حیرت انگیز طور پر ان سے اتفاق کر لیا۔
پنجاب کے یہ چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ تھے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ناصر محمود کھوسہ ایک غیر معمولی افسر تھے۔ میں نے اپنی36سالہ سرکاری نوکری میں ان جیسا باکمال چیف سیکرٹری نہیں دیکھا۔ اللہ نے انہیں غیر معمولی تدبر، حکمت اور تحمل سے نوازا ہے۔ اہم ترین معاملات پر بھی ان کی زیرصدارت ہونے والا اجلاس نصف گھنٹے سے پہلے ختم ہو جاتا تھا اور کسی کو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ وہ سب سے شائستگی کے ساتھ ملتے تھے۔ ان کے پاس کبھی کوئی سرکاری فائل ایک آدھ دن سے زائد ٹھہرنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔ انہیں غیر معمولی تیزی اور ذہانت کے ساتھ کام کرنے میں کمال حاصل تھا۔ ان میں دوسروں سے دل سے عزت کرانے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ وہ غلط کاموں سے انکار کرتے تھے مگر انہیں انکار کرنے کا ایسا خوبصورت فن آتا تھا کہ لوگ ان کے انکار کے انداز سے ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ جائز کام اتنی تیزی سے ہوتے تھے کہ کسی کو سفارش تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ ناصر محمود کھوسہ پنجاب کے وہ واحد چیف سیکرٹری تھے جن کا ماٹو خدمت تھا۔ ان کی غیر معمولی اہلیت اور قابلیت نے انہیں سرکاری نظام کے لئے ناگزیر بنا دیا تھا۔
پاکستان میں تعریف کو خوشامد قرار دینا قومی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر ناصر محمود کھوسہ کے متعلق سچ بولنے کا رسک لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان کے متعلق باتیں کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا نہیں ہوتا، وہ کھوسہ صاحب کی غیر معمولی شخصیت کی طرح میٹھا بھی ہوتا ہے۔ ناصر محمود کھوسہ ڈیرہ غازی خان کے ایک متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کی بیورو کریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے۔ ان کے ایک بھائی پولیس کے اعلیٰ افسر بنے اور دوسرے بھائی پاکستان کے چیف جسٹس بنے۔
چند روز قبل برادر محترم سلمان غنی صاحب نے بڑی محبت سے ایک کتاب کا تحفہ دیا اور اس کے ساتھ اس کتاب کی غیرمعمولی تعریف کر دی۔ سلمان غنی صاحب میرے ایسے دوست ہیں جن کی رائے میرے لئے ہمیشہ بے حد اہم رہی ہے۔ ایک ایسا دبنگ صحافی جو اقتدار کے انتہائی قریب رہا ہو مگر اس کا دامن ہر طرح کی کرپشن سے پاک رہا۔ یہ ان پر خدا کا خاص کرم ان کے نیک والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب ناصر محمود کھوسہ کی کتاب ”عطیہ فیض“ تھی۔ عطیہ فیض ان کی والدہ کا نام ہے اور اس کتاب کو عطیہ فیض کا نام دینا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔
ناصر محمود کھوسہ اہم ترین عہدوں پر فائز رہے۔ مگر یہ عہدے ان کی شخصیت کی دلاویزی اور انکساری کو متاثر نہیں کر سکے۔ ایک لاطینی دانشور انا، نفرت اور غصے کو خودکشی کا راستہ قرار دیتا ہے۔ اگر آپ صاحب اقتدار ہوں تو آپ کے اس راستے پر چلنے کے امکانات خاصے روشن ہوتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر ان کی زندگی کے رازوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔ یہ کتاب ان کی اللہ سے محبت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا اعلان کرتی ہے۔ یہ ان کے والدین کی تربیت اور فیض کا راز بتاتی ہے۔ اپنی اس کتاب کا انتساب انہوں نے بصد عجزو نیاز اور بہ ہزار ادب اپنے والد گرامی فیض محمد خان کھوسہ صاحب اور والدہ ماجدہ عطیہ فیض صاحبہ کے نام کیا ہے۔ انتساب کے الفاظ اپنے والدین سے ان کی غیر معمولی محبت کو بیان کرتے ہیں:
”اگرچہ آپ کو جدا ہوئے ایک عرصہ ہو گیا،مگر ہمیں یقین ہے کہ آپ دونوں ایک بہت بہتر جگہ پر موجود ہیں، کیونکہ اس دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ہم سب آپ کے فیض، آپ کے عطیات، آپ کی محبت، دعا اور شفقت سے محروم نہیں رہے۔“
ناصر محمود کھوسہ صاحب کی یہ کتاب دو حصوں پر مبنی ہے۔ پہلا حصہ اسلامی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر دعائیں قرآن کریم سے لی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں مخصوص سورتیں اور آیات ہیں جو بہت زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ ناصر محمود کھوسہ صاحب کی زندگی میں کامیابیوں کا راز ان دعاؤں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اتنے خوبصورت انداز سے شائع کیا ہے کہ حق ادا کر دیا ہے۔ سنگ میل کے افضال احمد صاحب غیرمعمولی شخصیت ہیں۔ آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آج کتابیں شائع کرنا ایک بڑا جہاد ہے۔ افضال احمد صاحب نے اسلام اور پاکستان کے متعلق اتنی زبردست کتابیں شائع کی ہیں کہ سنگ میل ایک اشاعتی ادارہ نہیں ایک تحریک بن گیا ہے۔ پاکستان میں قومی ایوارڈ ایسے سفارشی لوگوں کو ملتے رہے ہیں جن پر یہ ایوارڈ شرمندہ شرمندہ نظر آتے تھے۔ افضال احمد صاحب کو پاکستان میں علمی اور ادبی تحریک چلانے پر قومی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اس سے اس درویش صفت انسان کی عزت میں تو شاید کوئی اضافہ نہ ہو مگر اس ایوارڈ کی وقعت میں ضرور اضافہ ہو گا۔